ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

سانحہ بالگتر ، زیرحراست نوجوانوں کے قتل میں پاکستانی فوج کے آلہ کار خالد یعقوب کے ملوث ہونے کا انکشاف

سانحہ بالگتر ، زیرحراست نوجوانوں کے قتل میں پاکستانی فوج کے آلہ کار خالد یعقوب کے ملوث ہونے کا انکشاف

NOV

19
19 / 11 / 2023 رپورٹ

تربت (اسٹاف رپورٹر ) : ایک ہی خاندان کے تین جبری لاپتہ نوجوانوں کو پاکستانی فوج نے ھوشاپ میں گاڑی میں بٹھا کر بارودی دھماکے کے ذریعے قتل کردیا۔اس قتل کے بعد پولیس کے ذریعے یہ کہانی گھڑی گئی کہ سڑک کے کنارے بم دھماکے کے نتیجے میں تین نوجوان کی ہلاکت ہوئی ہے۔ پاکستانی فوج کے اس ظالمانہ عمل کے فوری بعد بلوچستان کی سول سوسوسائٹی ، انسانی حقوق کے اداروں اور سیاسی رہنماؤں نے پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ تینوں نوجوان جبری لاپتہ تھے جنھیں گذشتہ سال اگست کے مہینے میں پاکستانی فورسز نے مختلف مقامات سے اغواء کیا تھا۔


 


بلوچستان سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست کے مطابق اس خاندان کے سات افراد کو بیک وقت جبری لاپتہ کیا گیا تھا جن میں سے تین کو زیرحراست قتل کیا گیا ہے جبکہ چار اب تک جبری لاپتہ ہیں۔یہ سب آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔


 


ان میں سے تین نوجوان عادل ولد عصا ، شاہ جہان ولد عصا اور نبی داد ولد لیواری کو ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کو گاڑی میں بٹھاکر باردوی دھماکے کے ذریعے قتل کرکے ، کہانی گھڑی گئی۔پانک کے مطابق انھیں 22 اگست 2022 کو تربت شہر سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔


 


ان کے علاوہ شوکت ولد لیواری ، ظہیر ولد لشکران ، پیرجان ولد لشکران اور احمد خان ولد شگراللہ بھی اسی خاندان کے افراد ہیں جنھیں ایک ہی روز مختلف مقامات سے عینی شاہدین کے سامنے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔


 


’ پولیس جھوٹ بول رہی ہے ، قتل کیے گئے نوجوان زیرحراست تھے۔ گلزار دوست ‘


 


بلوچستان سول سوسائٹی کے کنوینر اور انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن گلزار دوست نے ایک ویڈیو بیان میں پولیس کی طرف سے گھڑی گئی کہانی کو مسترد کیا ہے۔گلزار دوست ان افراد کی جبری گمشدگی کے دوران ان کی بازیابی کے لیے بھی متحرک رہے ہیں۔


 



 


انھوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے گذشتہ رات کو ھوشاپ لیویز تھانے میں تین بچوں کی لاشیں لائی گئیں۔ان کے بارے میں پولیس کا بیان مکمل جھوٹ پر مبنی ہے ، پولیس طاقتور اداروں کے کہنے پر غلط بیانی کر رہی ہے۔ان کو بارودی دھماکے کے ذریعے قتل کیا گیا ہے۔ یہ جبری لاپتہ افراد تھے جن کی جبری گمشدگی کے ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔


 


گلزار دوست کا کہنا ہے ، عادل کو سید مجید شاہ ایڈوکیٹ کے چیمبر سے اور ان کے بھائی شاہ جہان کو میری بہن (کزن) کے گھر سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا تھا، اور نبی داد بھی گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیے گئے تھے۔


 


انھوں نے زور دے کر کہا کہ ضلع تربت کی پولیس مکمل جھوٹ بول رہی کہ ان کی ہلاکت آئی ای ڈی دھماکے کے نتیجے میں ہوئی ہے بلکہ یہ جبری لاپتہ افراد تھے۔ جنھیں اگست کے مہینے میں جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔ا ان کی ماورائے عدالت گرفتاری کا میڈیا اور کیچ بار ایسوسی ایشن بھی گواہ ہیں۔


 


گلزار دوست نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ زیرحراست دیگر چار افراد شوکت ولد لیواری ، ظہیر ولد لشکران ، پیرجان ولد لشکران اور احمد خان ولد شگراللہ کو بھی ماورائے عدالت قتل کیا جاسکتا ہے۔


 



 


’بلوچستان کے لوگوں کو محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی ادارے کردار ادا کریں۔ پانک‘


 


انسانی حقوق کے ادارے پانک نے بھی بالگتر میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ پانک نے اپنی اگست کی رپورٹ میں ماورائے عدالت قتل کیے گئے نوجوانوں کی جبری گمشدگی رپورٹ کی تھی۔


 


پانک نے ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا بلوچستان میں مارو اور پھینک دو کی برسوں سے جاری پالیسی انسانی حقوق کا ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے یہاں لوگوں کے ساتھ ریاستی سلوک کے بارے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔


 


پانک نے مطالبہ کیا ہے کہ اس منظم زیادتی کو دور کرنے اور اصلاح کے لیے فوری بین الاقوامی توجہ اور واقعے کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ بلوچستان میں ان واقعات کے ذمہ داران کی جوابدہی کو یقینی بنائے اور بلوچستان عوام کو انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے۔


 


’ سانحہ بالگتر کے خلاف آواز اٹھانا سب کے لیے ضروری ہے۔ ڈاکٹرنسیم بلوچ‘


 


بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اس واقعے کے تناظر میں اپنے بیان میں کہا بلوچستان کے علاقے بالگتر سے تین نوجوانوں کو اغواء کے بعد قتل کیا گیا۔ اس غیرانسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھانا سب کے لیے ضروری ہے۔


 


انھوں نے پارلیمانی جماعتوں کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا نام نہاد بلوچ پارلیمنٹیرین اس صورتحال میں محض تماشائی ہیں۔ وہ پاکستانی انتخابات کے قریب آتے ہی ووٹوں کی بھیک مانگ رہے ہیں جبکہ ان کے آقا بلوچ عوام پر ظلم ڈھانے میں مصروف ہیں۔وقت آگیا ہے کہ بلوچ قوم دوستی کے بھیس میں ان عفریتوں کے کردار سے پردہ اٹھایا جائے۔


 


’پاکستانی فوج کو جب بھی مار پڑتی ہے وہ جبری لاپتہ افراد کی لاشیں گراتی ہے۔ قاضی ریحان‘


 


بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے انفارمیشن سیکریٹری قاضی داد محمد ریحان نے اس واقعے پر بات کرتے ہوئے کہا پاکستانی فوج کا بلوچستان میں یہ طریقہ ہائے کار کافی پرانا ہے۔قابض ریاست کی فوج کو جب بھی بلوچ سرمچاروں کی طرف سے مار پڑتی ہے تو وہ جبری لاپتہ افراد کی لاشیں گرا کر اسے مقابلے کا نام دیتی ہے۔ حالیہ دنوں مکران میں بلوچ سرمچاروں نے پاکستانی فوج کے خلاف بڑی کارروائیاں کی ہیں اور انھیں جانی و مالی نقصان سے دوچار کیا ہے۔زیرحراست افراد کا قتل اسے کا ردعمل ہے تاکہ وہ اپنی فوجیوں اور پاکستانی عوام کو دھوکا دے سکے کہ وہ بلوچ سرمچاروں کے خلاف کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اس سے قبل جب بھی جعلی مقابلوں کے دعوے کیے گئے یہی صورتحال تھی۔البتہ اس واقعے میں پولیس کے نام نہاد انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) نے اسے جعلی مقابلے کا نام نہیں دیا ہے بلکہ پولیس کا دعوی ہے کہ گاڑی بارودی دھماکے کے نتیجے میں تباہ ہوئی جس میں یہ تین نوجوان سوار تھے۔


 


انھوں نے کہا جعلی مقابلوں میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کو قتل کرکے ہمیشہ یہ بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج لوگوں کی جبری گمشدگی میں ملوث نہیں بلکہ جبری لاپتہ افراد روپوش ہیں اور بلوچ جنگ آزادی میں شامل ہیں۔ وہ اپنے تئیں اس دعوے کو رد کرتے ہوئے ثبوت کے طور پر انھیں مقابلوں میں ہلاک کرتے ہیں۔ چونکہ بلوچستان ایک میڈیا بلیک ہول میں پھنسا ہوا ہے۔ ماضی میں میڈیا کی صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر تھی ، ریاست کی گرفت کمزور تھی ، قوم دوست سیاسی جماعتیں بہتر پوزیشن میں تھیں تو پاکستانی فوج روزانہ کی بنیاد پر ویرانوں میں لاشیں گراتی تھیں جن میں اکثریت بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او، بی آر ایس او ، بی این ایم اور بی آر پی کے کارکنان کی تھیں۔سی ٹی ڈی کے قیام کے بعد اب جعلی مقابلوں کے ذریعے جبری گمشدگی کو مسئلے کو دبانے کی کوشش کیا جا رہا ہے۔مگر اس بار جیسا کہ گذشتہ روز یہ خبر سامنے آئی کہ سی ٹی ڈی کے مقامی اہلکاروں نے بلوچ سرمچاروں کے پولیس تھانے پر حملے اور ہتھیاروں کی ضبطی کے بعد پاکستانی فوج کے جعلی مقابلوں سے دوری اختیار کی ہے۔ میرے خیال میں اب بھی پاکستانی فوج یہی چاہتی تھی کہ اسے جعلی مقابلے کا نام دیا جائے لیکن لیویز نے اسے ایک نئے رنگ سے پیش کیا۔


 


قاضی ریحان نے کہا جبری گمشدگی صرف بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے اور موجودہ زمانے میں انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔پاکستانی فوج بلوچستان کے علاوہ سندھ اور پشتونخوا میں بھی قوم سوال کو دبانے کے لیے لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ بلوچستان اور بلوچ قوم کا مسئلہ ان کی قومی غلامی ہے جس کے پرامن حل کے دروازے پاکستانی ریاست پر مسلط پاکستان کی فوج نے ہمیشہ کے لیے بند کیے ہیں۔ اب آزادی حاصل کیے بغیر اس ظالم فوج اور قابض ریاست سے بلوچ قوم کی نجات کی کوئی راستہ نہیں۔اس لیے دنیا کو بلوچ قوم کی مدد کرنی چاہیے جس میں ہمسایہ ممالک کا کردار اہم ہے۔ان کی خاموشی ، ظالم اور مظلوم کے درمیان غیرجانبداری ان مظالم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔


 


’ بالگتر کے سات نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا معاملہ ذاتی دشمنی میں ریاستی اداروں کا استعمال ‘


 


بالگتر کے مذکورہ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے پیچھے سات اگست کو پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ریڈیو زرمبش کو ذرائع نے نام ظاہر کرنے کے شرط پر بتایا ہے کہ ان نوجوانوں کو خالد ولد یعقوب ڈنگ نامی جرائم پیشہ شخص نے پاکستانی فورسز سے گرفتار کرواکر جبری لاپتہ کروایا ہے جو پاکستانی فوج کا آلہ کار اور ڈیتھ اسکواڈ کا کارندہ ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق خالد ولد یعقوب ڈنگ نے ان کی جبری گمشدگی میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان بی ایل ایف کی ایک کارروائی کا بدلہ ہے جس میں اس کا بھائی اسحاق ولد یعقوب ڈنگ مارا گیا تھا، واضح رہے کہ بلوچی میں ڈنگ ’ڈکیت‘ کو کہتے ہیں جو کہ ان کے باپ کی عرفیت تھی جو اپنے زمانے میں علاقے کا چھٹا ہوا بدمعاش تھا۔


 


یعقوب ڈنگ کے سماج دشمن کردار کو دیکھتے ہوئے پاکستانی فوج نے اسے مزید مسلح کرکے بلوچ قوم کے خلاف استعمال کیا ، جس کے ردعمل میں بلوچستان لبریشن فرنٹ نے سن 2011 کو اسے ایک حملے میں گیارہ ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے خالد اور اسحاق نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم چلتے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کی سربراہی کرتے رہے۔ پاکستانی فوج کے اس ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ خالد یعقوب ہی ہے۔


 


سات اگست 2022 کو بالگتر کے علاقے نلی میں بی ایل ایف نے ایک ریموٹ کنٹرول حملے میں اسحاق ولد یعقوب کو اس کے چھ ساتھیوں سمیت ہلاک کیا تھا۔ بی ایل ایف نے ایک بیان کے ذریعے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔


 


ذرائع نے بتایا ہے کہ خالد ولد یعقوب نے اجتماعی سزا کے طور پر اس خاندان کے سات نوجوانوں کو پاکستانی فورسز کے ذریعے جبری لاپتہ کروایا تھا۔ان کی جبری گمشدگی کے دوران علاقائی عمائدین کی مسلسل کوشش اور خالد کو منت سماجت کرنے کے بعد بھی وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہا ۔ وہ ان نوجوانوں کو اپنے بھائی کی موت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔


 


تربت پولیس کے ایک افسر کے مطابق ، خالد ڈنگ ان جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار ہے جس کا گروہ اس کے باپ اور بھائی کی ہلاکت کے بعد منشتر ہوچکا تھا۔ اس لیے اس نے ایم آئی اور پاکستانی فورسز کی مدد سے ان افراد کی نشاندہی کی جنھیں پاکستانی فوج نے ماورائت عدالت گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا۔انھیں گاڑی میں بٹھا کر بارودی دھماکے کے ذریعے قتل کیا گیا یہ اپنے بدلے کا اظہار ہے کہ جس طرح بی ایل ایف نے اس کے بھائی اسحاق ڈنگ کو بارودی دھماکے میں نشانہ بنایا تھا ، اب اس نے ان لوگوں کو نشانہ بنایا ہے جنھیں وہ اپنا دشمن یا بی ایل ایف کا ہمدرد سمجھتا تھا۔


 


مذکورہ افسر نے بتایا کہ پولیس کو پاکستانی فوج محض اپنے جرائم کے ثبوت مٹانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پاکستانی فوج پے درپے حملوں کے نتیجے میں غیرضروری موومنٹ نہیں کرتی اور اب پولیس بھی دفاعی پوزیشن میں آچکی ہے ایسے میں زیرحراست لوگوں کو ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے ایک طے شدہ طریقے کے مطابق قتل کیا گیا اور پولیس کو یہی کہانی بناکر پیش کی گئی ہے تاکہ ایسا کہا جاسکے کہ وہ لوگ جبری لاپتہ نہیں تھے بلکہ روپوش تھے اور شاید اپنے ہی گاڑی میں موجود دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے ہلاک ہوئے۔


 


واضح رہے کہ تاحال پولیس نے دھماکے کی وجوہات کے بارے میں کوئی آفیشل بیان نہیں دیا تاہم پاکستانی میڈیا نے لیویز ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ گاڑی بارودی کی دھماکے کی زد میں آیا تھا جس میں سوار تین افراد کی ہلاکت ہوئی۔


 


ذرائع کے مطابق ، اس خاندان کے دیگر چار افراد بھی پاکستانی فوج کے زیرحراست ہیں خدشہ ہے کہ انھیں بھی اسی طرح ماورائے عدالت قتل کیا جائے گا۔