ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو ,نصیرآباد,ڈیرہ-اللہ-یار

سیلاب میں بچی کو جنم دینے والی پروین بلوچ سڑک کنارے بغیر کسی سائبان کے رہ رہی ہے | خصوصی رپورٹ

سیلاب میں بچی کو جنم دینے والی پروین بلوچ سڑک کنارے بغیر کسی سائبان کے رہ رہی ہے | خصوصی رپورٹ

SEP

08
08 / 09 / 2022 رپورٹ

ڈیرہ اللہ یار : بلوچستان میں بارشوں سے پہلے خشک سالی ڈیرہ جمائے بیٹھی تھی۔بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیرکوہ میں پانی کمیاب ہوچکا تھا۔ جوہڑ کا پانی پینے سے وسیع علاقے میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی لوگ اور مویشیاں مر رہے تھے۔ علاقے کے مکین نقل مکانی کر رہے تھے، یہ رواں سال 17 اپریل سے شروع ہونے والی صورتحال تھی جو 12 مئی تک سنگین ہوکر میڈیا پر بلوچستان کی سب سے بڑی خبر بن کر نشر ہو رہی تھے۔




تب بھی خالی دامان بلوچ رضاکاروں نے اپنی جھولیاں پھیلائیں اور ان لوگوں کے امداد کے لیے اندرون اور بیرون وطن امداد اکھٹی کی گئی۔ڈیرہ بگٹی جہاں سے گذشتہ 72 سالوں سے پاکستانی پنجاب کی ایک کمپنی فطری گیس جسے پاکستانی سوئی گیس کے نام سے جانتے ہیں چوس کر پورے پاکستان کی ضروریات پوری کر رہی ہے لیکن یہاں بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں رواں سال جون تک لوگ پیاسے مر رہے تھے اور لوگوں اس صورتحال سے نکلنے کے لیے بلوچ رضاکاروں کی ہی طرف دیکھ رہے تھے۔


اس صورتحال میں بارش کی بوندیں حیات نو کی نوید تھیں۔لیکن شدید موسمیاتی تبدیلی کی لپیٹ میں ہمارا خطہ غیرمتوقع بارشوں اور انتظامیہ کی طرف سے پیشگی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوگیا۔بلوچستان میں حالیہ سیلاب سے 97 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔بڑے رقبے پر فصلیں اور گھربار تباہی کی زد میں آئے ہیں۔سب سے زیادہ نقصان ڈیرہ غازی خان،راجن پور، نصیرآباد اور ضلع لسبیلہ کو ہوا ہے۔


امدادی کارکنان اب بھی پاکستانی ریاستی انتظامیہ سے سو قدم آگے متاثرہ علاقوں تک پہنچ رہے ہیں جہاں سرکاری امداد اگر پہنچ بھی رہا ہے تو وہ متاثرہ علاقوں کے بااثر افراد کے ڈیروں پر ڈھیر ہو رہا ہے۔ سیلاب متاثرین شاہراؤں کے کنارے بڑی تعداد میں بے یار و مددگار پڑے ہیں۔سیلاب کے بعد لوگوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ان کے سروں سے چھتیں اڑ گئی ہیں اور پاؤں کے نیچے سے زمین پھسل گئی ہے۔


ایسی صورتحال میں عموما بزرگوں، بچوں اور خواتین کی صحت اور دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ بلوچستان میں صحت کی سہولیات پہلے ہی سے ناپید ہیں اور زچہ و بچہ کی اموات بلوچستان کے گوادر جیسے شہروں میں عدم سہولیات کی وجہ سے عام ہیں، دیہی آبادی کی صورتحال کیا ہوگی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں۔


انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ نور اس وقت نصیرآباد اور ملحقہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں کر رہی ہیں اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے دنیا کو سیلاب متاثرین کی حالت زار سے باخبر رکھنے کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔


حمیدہ نور کے مطابق نصیر آباد ڈویژن حالیہ سیلاب سے مکمل طور پر متاثر ہوا ہے۔جو کہ پانچ اضلاع کچھی ، جعفرآباد، جھل مگسی ، نصیرآباد اور صحبت پور پر مشتمل ہے اور جس کی مجموعی آبادی 17 لاکھ پچاس ہزار نفوس کے لگ بھگ ہے۔


حمیدہ نور نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو بھی شیئر کی ہے جس میں ضلع نصیرآباد اور جعفرآباد کی درمیانی سڑک پر سندھ سے متصل بائی پاس تک سڑک کے کنارے ہزاروں سیلاب متاثرین بغیر مناسب شلٹر کے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔


ڈیرہ اللہ یار سے اپنی ایک ویڈیو میں حمیدہ نور نے اس صورتحال کے بارے میں بتایا ’ آٹھ فٹ پانی ابھی تک کھڑا ہے اور پانی کا بہاؤ بھی جاری ہے۔ سیلابی ریلے سے چالیس سے پچاس گاؤں کے مکین نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔‘


’ یہ افراد گذشتہ ایک مہینے سے سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری ادارے کی طرف سے مدد فراہم نہیں کیا جاسکا۔متاثرین میں حاملہ خواتین بھی ہیں جن کے لیے یہاں رہنا مشکل تھا وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس مشکل صورتحال میں رہ ر ہی ہیں۔اس وقت یہاں گرمی کا زور 48 ڈگری ہے، ائرکنڈیشنڈ کمروں میں بھی اس گرمی میں بیھٹنا مشکل ہے اور یہاں ہزاروں لوگ بغیر چھت اور بغیر امداد کے پڑے ہیں۔‘


حمیدہ نور اور دیگر امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ تکلیف میں حاملہ خواتین ہیں۔


اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل چلڈرن ایمرجنسی فنڈ (یونیسف) کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں حاملہ خواتین اور بچے خطرے میں ہیں جنہیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے پاپولیشن فنڈ کے مطابق بلوچستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں ایک لاکھ 40 ہزار حاملہ خواتیں ہیں جن میں سے رواں مہینے قریبا 20 ہزار خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔


’بارش کے ساتھ میرے زچگی کے درد شروع ہوئے اور میں نے سیلاب میں بچی کو جنم دیا، پروین بلوچ‘


پروین بلوچ بھی ان ایک لاکھ چالیس ہزار حاملہ خواتین میں سے ایک تھیں جنھوں نے سیلاب میں اپنی بچی کو جنم دیا۔ اب ان کی بچی ایک مہینے کی ہوچکی ہے اور پروین سڑک کے کنارے جمالی بائی پاس ڈیرہ اللہ یار پر سر پر بغیر چھت کی بیٹھی ہیں۔ان کا گاؤں ڈیرہ اللہ یار میں ہی واقع ہے جو سیلاب سے متاثر ہوچکا ہے۔ان کے گاؤں میں رات کے چار بجے کے قریب سیلاب کا پانی آیا تھا جس کے بارے میں انتظامیہ کی طرف سےگاؤں کے مکینوں کو کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔سیلاب کی وجہ سے گاؤں میں افراتفری مچ گئی اور لوگ اپنے گھروں سے نکل گئے۔اسی اثناء پروین کو زچگی کے درد شروع ہوئے۔ بارش اور کھڑے پانی میں پروین کو پیدل چل کر شہر میں لے جایا گیا جہاں اس نے اپنے بچی کو جنم دیا اور ہسپتال سے سیدھے جمالی بائی پاس پہ آکر بیٹھ گئیں۔


پروین نے وہاں پر موجود امدادی کارکن کے توسط ریڈیو زرمبش سے ایک ویڈیو کے ذریعے بات کی ہے اور اپنی حالت زار سے آگاہ کیا ہے۔


انھوں نے کہا ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بارش ہوئی سیلاب آیا، مجھے زچگی کے درد شروع ہوئے اور میں نے بارشوں میں اپنی بچی کو جنم دیا ۔ مجھے جب زچگی کے درد شروع ہوئے تو کم عمر ہونے کی وجہ سے میں خوف محسوس کرنے لگی ، جب میں نے اپنی بچی کو جنم دیا تب ہم بے گھر ہوچکے تھے۔میری چھوٹی بچی بیمار ہے اسے دست لگی ہے اور الٹیاں کر رہی ہے۔


’ بڑے لوگ ٹینٹ ،راشن خورد برد کررہے ہیں اور ہمیں کچھ بھی نہیں دیا جارہا۔بارش میں بچوں کے جسم پہ دانے نکل آئے ہیں۔ہمیں امداد نہیں مل رہا ہمارے بچے سڑکوں پہ پڑے ہیں۔نہ انھیں روٹی ملتی ہے، نہ راشن ، نہ ٹینٹ کچھ بھی نہیں مل رہا ۔صاحب حیثیت لوگ راشن خود لے رہے۔ہمارے بچے دربدر دھوپ میں جل رہے ہیں۔‘


انھوں نے امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ایک مہینہ ہوچکا ہے ہم بنا راشن سڑک پہ پڑے ہیں۔سورج کی تپش میں بچے جل رہے ہیں ، بچے بیمار ہیں انھیں دست اور الٹیاں لگی ہیں۔ نہ دوا ئی ہے، نہ علاج ، نہ ٹینٹ ہے ، نہ سایہ ہے ، نہ راشن ہے ۔جو بھی ہو ہمارے بچوں کے لیے راشن، دوائی ، ٹینٹ جس طرح بھی ممکن ہوسکے آپ ہماری مدد کریں۔


ذریعہ: حمیدہ نور ٹویٹراکاؤنٹ | تصویر: حمیدہ نور