ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو ,پاکستانی-فوج-

ایف آئی اے نے پاکستانی فوج پر تنقید کے الزام میں 692 صفحات پر مشتمل سوشل میڈیا اکٹیویسٹ اور صحافیوں کی فہرست جاری کردی، ذاتی معلومات بھی افشاں

ایف آئی اے نے پاکستانی فوج پر تنقید کے الزام میں 692 صفحات پر مشتمل سوشل میڈیا اکٹیویسٹ اور صحافیوں کی فہرست جاری کردی، ذاتی معلومات بھی افشاں

OCT

09
09 / 10 / 2022 رپورٹ

ایف آئی اے کی رپورٹ کی پی ڈی ایف


http://zrumbesh.com/urdu/uploads/main/2022/Report/Consolidated%20-%20Annexures%20-%20FINAL%2017-08-2022_221004_232542.pdf


اسلام آباد : پاکستان کی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی طرف سے 692 صفحات پر مشتمل ایک فہرست سوشل میڈیا میں زیرگردش ہے جس میں پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور سیاسی کارکنان کے اکاؤنٹس کی تفصیلات دی گئی ہیں۔اس فہرست میں پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے بھی تین ایسے صحافیوں کے نام شامل ہیں جنھوں نے بلوچستان میں پاکستانی فوج کی کارروائیوں کے بارے میں لکھا ہے۔


مذکورہ فہرست میں سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والے افراد کی تصاویر، نام و ولدیت، فون نمبرز ، شناختی کارڈز ، پاسپورٹ نمبرز اور گھر کے پتے درج ہیں۔جبکہ بعض افراد کے قریبی رشتہ داروں کے نام بھی فہرست میں درج کیے گئے ہیں۔


مذکورہ فہرست میں ایف آئی اے کی نظر میں قابل اعتراض مواد کے اسکرین شاٹس بھی دیے گئے ہیں اس فہرست میں بیشتر اکاؤنٹس پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان یا اس کے حامیوں کے ہیں جبکہ اس فہرست میں کم از کم پانچ ایسے اکاؤنٹ بھی شامل ہیں جو بلوچ آزادی پسند تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔اس فہرست میں سماجی اور ادبی شخصیت کامریڈ واحد بلوچ کی بیٹی ھانی بلوچ کے نام سے ’ ایک ٹویٹر اکاؤنٹ‘ کو منسوب کرکے ان کے ذاتی نوعیت کے معلومات بھی افشاں کیے گئے ہیں۔


«ھانی بلوچ سےمنسوب اکاؤنٹ اور ان پر الزامات»


ھانی بلوچ سرگرم سماجی کارکن، مصنف اور فلم ہدایت کار ہیں۔لیاری کراچی کی رہائشی ھانی بلوچ بلوچستان اور کراچی میں اپنے مثبت سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ھانی نے بلوچی زبان میں ’زند ءِ آدینک ( زندگی کا آئینہ ) ‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جو اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔ ان کے والد کامریڈ واحد بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے سیاستدان ہیں۔ ماضی میں بلوچ نیشنل موومنٹ سے بھی وابستہ رہے ہیں۔انھیں پاکستانی فوج نے گرفتاری کے بعد کئی مہینے جبری گمشدگی کا بھی شکار کیا تھا۔ کامریڈ واحد کی جبری گمشدگی کے دوران ان کی ہونہار بیٹیاں ھانی اور ماھین اپنے والد کی بازیابی کی تحریک میں منظر عام پر آئیں۔کامریڈ واحد کی بازیابی کے بعد دونوں نوجوان سماجی ، ادبی ، فنی اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئیں۔


اس اکاؤنٹ پر جسے بظاہر سوشل میڈیا پر بلوچ سرمچاروں کی حمایت کی وجہ سے اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے رواں سال 27 اپریل کو بلوچ سرمچاروں کی ایک تصویر کے ساتھ مشہور پاکستانی انقلابی شاعر ’حبیب جالب‘ کے درج ذیل اشعار لکھ کر پوسٹ کیا گیا تھا:


’ جینے کا حق سامراج نے چھین لیا


اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو


ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے


مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو ‘


ھانی بلوچ کے نام سے اس اکاؤنٹ کے پروفائل پر ’بلوچ نیشنل موومنٹ کی شہید رہنماء اور بی ایس او آزاد کی سابقہ چیئرپرسن شہید بانک کریمہ بلوچ‘ کی تصویر لگی ہے۔


اس ھانی بلوچ (جعلی اکاؤنٹ) نے جسے کامریڈ واحد کی بیٹی قرار دیا گیا ہے اپنے تعارف میں لکھا ہے کہ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی تربت زون کی ممبر اور اقراء یونیورسٹی کی طالب علم ہیں، اس کے باوجود اس اکاؤنٹ کو ’ھانی واحد بلوچ ‘ سے منسوب کرکے انھیں ملزم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔


ھانی بلوچ کو بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی تحریک اور سندھو دیش موومنٹ کی رکن (ایس ایم اکٹیوسٹ) بھی قرار دیا گیا ہے۔


«یہ فہرست کیوں مرتب کی گئی ہے؟»


فہرست کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایف آئی اے نے ان افراد کی شناخت ہے جنھوں نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانی فوج اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر سوشل میڈیا میں تنقید کرتے ہوئے سخت زبان استعمال کی تھی۔عمران خان کے حامی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت امریکا کی ایماء پر پاکستانی فوج نے گرائی تھی جس پر پاکستان تحریک انصاف کھل کر پاکستان کی فوج پر تنقید کر رہی ہے۔لیکن ایسا پہلی بار نہیں کہ کسی پاکستان سیاستدان نے ملک کی سیاست میں پاکستانی فوج کی مداخلت پر تنقید کی ہو۔ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان مسلم لیگ اور فضل الرحمان /جمعیت علمائے اسلام - ف، محمود خان اچکزھی / پشتونخوا میپ وغیرہ بھی عمران خان کی حکومت کو فوج کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس کے لیے ’سلیکٹڈ حکومت‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے شدید تنقید کرتے تھے لیکن جب عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپوزیشن کی حکومت بنی اور پی ٹی آئی نے اسے فوج کی حمایت سے بننے والی ’امپورٹڈ گورنمنٹ‘قرار دیا تو پاکستان تحریک انصاف اور پاکستانی فوج کے درمیان تعلقات میں دراڑ پیدا ہوئے۔


اس تمام صورتحال میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب رواں سال اگست کے مہینے میں ضلع لسبیلہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کا ایک ہیلی کاپٹر گرگر تباہ ہوگیا جس میں پاکستان فوج کے 12 کور کے کمانڈر سمیت 6 دیگر افسران سوار تھے۔بعد میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی اتحاد ’ بلوچ آجوئی سنگر ( براس ) ‘ نے دعوی کیا تھا کہ ہیلی کاپٹر کو اس کی ایک یونٹ نے مار گرایا تھا۔پاکستانی فوج اور دیگر حکام نے اس دعوے پر میڈیا میں ردعمل دیے بغیر اسے جھوٹا قرار دے کر مسترد کردیا۔اس فہرست میں ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جنھوں نے براس کے دعوے کے بارے میں خبر دی تھی۔


ہیلی کاپٹر کریش کے تناظر میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے بھی اس تنقید کا ردعمل سامنے آیا تھا۔اس فہرست سے یہی لگتا ہے کہ اپنے ردعمل کے اظہار کے بعد پاکستانی فوج نے اس تنقید پر سنجیدہ اور سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان افراد کی شناخت کی ہے جنھوں نے سوشل میڈیا پر فوج اور فوجی افسران کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔ اس فہرست میں بعض ایسے افراد کے نام بھی شامل ہیں جنھوں نے محض کمنٹ کیے تھے یا ڈی جی آئی ایس پی آر کو تنقیدی ریپلائی دیے۔ ایسے افراد بھی اس فہرست میں نظر آئیں گے جن کے پوسٹ کو پڑھ کر نہیں لگتا ہے کہ وہ ’ توہین افواج‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔


پاکستانی سیاست میں بدکلامی بڑے سیاسی رہنماؤں سے لے کر عام کارکنان تک معمول کی بات ہے۔ پاکستان میں سیاسی اختلاف رائے کے ردعمل میں ’حرام خور، منافق ، غدار ‘ معمولی الفاظ ہیں جو مخالفین کے خلاف کھل کر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ مخالفین کو اپنی شناخت ظاہر ہونے کی پرواہ کیے بغیر پاکستانی سیاسی ورکرز سوشل میڈیا پر ننگی گالیاں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ان کے لیے ’باجوہ‘ کو گالی دینا بھی ایک عام سی بات ہوگی لیکن اس فہرست کے اجرا سے لگتا ہے کہ باجوہ کا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا جو ایک ایسی فوج کے سربراہ ہیں جس نے اپنا مقدس امیج بنانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔


اس فہرست کی بنیاد پر ٹھوس اور عملی کارروائی کی بجائے اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر فوج پر کھل کر تنقید کرنے والوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے نہ صرف ان پر کڑی نظر رکھتی ہے بلکہ ان کی شناخت کرنے کی بھی اہل ہے۔یہ ایک طرح سے ان افراد کو دھمکی آمیز اشارہ ہے جن کی ذاتی معلومات عام کردیے گئے ہیں۔


«رپورٹ کی ترتیب»


اس فہرست میں 580 اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے 168 کی شناخت کا دعوی کیا گیا ہے جبکہ 123 کی شناخت کے لیے نادرا سے پوچھا گیا ہے۔ 238 اکاؤنٹس کو جعلی یا شناخت نہ کیے جاسکے قرار دیا گیا ہے۔ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک سے سرگرم 33 اکاؤنٹ بھی اس فہرست میں شامل ہیں جبکہ 18 ایسے اکاؤنٹ ہیں جن کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کہ یہ ہندوستان سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔


اس رپورٹ کے مطابق 178 اکاؤنٹ ایسے ہیں جو پی ٹی آئی کا مونوگرام یا جھنڈا استعمال کر رہے ہیں۔ 123 ایسے اکاؤنٹ ہیں جو اپنے پروفائل تصاویر کے ذریعے پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔


«تنقیدی مواد اور تنقید کرنے والے سوشل میڈیا صارفین»


ان اکاؤںٹس کو ’معلوم افراد کے اکاؤنٹس، تصدیق کے لیے نادرا کو بھیجے گئے افراد کے اکاؤنٹس ، جعلی اور نامعلوم افراد کے اکاؤنٹس ، ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک سے آپریٹ کیے جانے والے اکاؤنٹس اور انڈیا سے چلائے جانے والے اکاؤنٹس‘ کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے بالترتیب A سے لے کر E درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔


پہلی درجہ بندی میں 168 افراد کی فہرست میں بول نیوز نیٹورک کے صدر اور ایم ڈی ’سمیع ابراہم بھی شامل ہیں۔سمیع ابراہم بول نیوز پر پیر سے جمعہ تک تجزیہ کے نام سے پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں۔


یہ صاحب موجودہ حکومت پر تنقید کرتے وقت صحافتی توازن اور غیرجانبداری کی پرواہ نہیں کرتے اور مسلم لیگی لیڈران کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ان کا شاذ و نادر ہی کوئی پوسٹ ایسا ہو جس سے موجودہ حکومت اور اس کے حامی خوش ہوں لیکن ان کی اس فہرست میں موجودگی کی وجہ عمران خان کے ایک حامی ’سابق فوجی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خان لودھی‘ کے حوالے سے کیا گیا ٹویٹ ہے۔


سمیع ابراہم نے ایک ٹویٹ میں دعوی کیا تھا کہ جنرل لودھی کو اے جی برانچ سے فون کرکے بتایا گیا کہ فوج کی طرف سے ان کے میڈیکل سہولیات بند کرنے سمیت ان پر پانچ پابندیاں عائد کرتے ہوئے تمام چینلز کو کہا گیا ہے کہ انھیں ٹی وی پروگرام میں شامل نہ کریں۔ انھوں نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’شرمناک‘ لکھا تھا۔


اس فہرست میں سمیع ابراہم کے علاوہ بھی کئی ایسے صحافیوں کے نام شامل ہیں جو پاکستان میں بڑے اخبارات اور ٹی وی سے وابستہ ہیں اس کے علاوہ یوٹیوبرز ، ٹک ٹاکرز اور فنکاروں کو بھی اس فہرست میں دیکھا جاسکتا ہے۔


میجر ریٹائرڈ مقبول احمد چوہدری سابق فوجی افسر ہیں ،جنھوں نے ایک دعوے کو شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ ’ پاکستانی فوج کے جنرلز عمران خان کے آزادی مارچ میں شرکت کرتے آ رہے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ کیسے پولیس اور فوج شیلنگ کرتی ہے۔‘ جو خبر انھوں نے شیئر کی تھی اس میں دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستان آرمی کے 500 سینئرافسران جنرل ہارون باشا کی قیادت میں لانگ مارچ میں آ رہے ہیں۔


اس دستاویز میں کچھ پریشان کن معلومات بھی شامل ہیں مثال کے طور پر ساؤتھ افریقہ میں مقیم عمران افضل راجہ کی بیٹی انزش عمران راجہ کے اکاؤنٹ کی تفصیل بھی دی گئی ہے اور مزید تفصیلات میں ان کے گھر کا مکمل پتہ ، بیوی ، والد اور تمام بچوں کے نام دیئے گئے ہیں جبکہ الزام یا اعتراض صرف ’ عمران افضل راجہ ‘ کی ایک ٹویٹ پر ہے۔


صحافی محمد صابر شاکر کو ’ٹاپ نیوز‘ پر ایک پروگرام کی بنیاد پر انھیں اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جس کا ٹائٹل ہے ’کپتان سے نیوٹرل کیوں ڈرتا ہے؟ کردار ہو تو ایسا دشمن بھی مان گئے عمران خان بھٹو سے زیادہ خطرناک‘۔دلچسپ بات یہ ہے ان کا یہ پروگرام شیئر کرنے پر بھی بعض افراد کے نام جیسا کہ اس درجہ بندی میں 13 اور 14 نمبر پر محمد قاسم اور محمد صابر شاکر کی بہن ’سروا شاکر‘ بھی ملزم قرار پائے ہیں جنھوں نے ان کا مذکورہ پروگرام شیئر کیا تھا۔


جن اکاؤنٹس کے صارفین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نادرا سے مدد مانگی گئی ہے ان میں سرفہرست ’وقاص امجد (محترم)‘ ہیں۔یہ صاحب پاکستانی پنجاب کے ایک وزیر کے ترجمان رہ چکے ہیں۔انھوں نے پروفائل پر اپنی تصویر کے ساتھ پی ٹی آئی کا نعرہ ’ غلامی نامنظور‘ لکھا ہے جس کے پس منظر میں عمران خان کی تصویر بھی ہے۔ ان کے اکاؤنٹ کو ٹویٹر نے بھی ویری فائڈ کیا ہے لیکن اس کے باوجود ایف آئی اے نے اسے اس فہرست میں شامل کیا ہے جن میں غیرتصدیق شدہ افراد ہیں۔


ان صاحب نے 22 اگست 2022 کو ٹویٹ کیا تھا کہ ’ لوگوں نے ہیلی کاپٹر گرا کر اس کے پرزے بھی بیچ دیے ہیں۔‘ اس ٹویٹ کو غالبا فوج کے خلاف تنقید مانا گیا ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر کریش کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین نے فوج کے اس بیانیے کو قبول نہیں کیا تھا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کریش ہوا تھا کیونکہ اس دن موسم صاف تھا۔


بعض صارفین اس لیے بھی اس فہرست کا حصہ ہیں کہ انھوں نے فوجیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرنے اور انھیں شہید کہنے سے انکار کیا تھا۔جیسا کہ دوسرے درجے میں دوسرے نمبر پر شامل ’مدثر حسین‘ نے یکم اگست کو لکھا تھا ’ کبھی ایسے خبروں پر ہمیں صدمہ ہوا کرتا تھا پھر ہمیں بے حس بنا دیا گیا 25 مئی والے دن ہم پر شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں برسا کر۔۔۔۔‘ اب اس پر کسی کے خلاف ’توہین افواج‘ کا کیس کیسے بنتا ہے یہ تو تب پتا چلے گا جب یہ لوگ پاکستان کی عدالت میں پیش ہوں گے کیا بعید کہ انھیں فوجی عدالت میں ہی پیش کیا جائے کیونکہ پاکستان میں فوج کچھ بھی کرسکتی ہے۔


مگر اس فہرست میں شامل بعض صارفین نے واضح الفاظ میں پاکستانی فوج کے چیف کو غدار وطن قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ انھوں نے جان بوجھ کر ہیلی کاپٹر گرایا ہے تاکہ ان کے بقول اچھے فوجی افسران ہلاک ہوں ۔


جیسا کہ دوسری کیٹگیری میں 145 ویں نمبر پر ٹکنیکل عدیل نامی صارف نے لکھا تھا ’ابتدائی معلومات کے مطابق جنرل سرفراز علی شہید رجیم چینج آپریشن کے شدید مخالف تھے۔جنرل باجوہ کے کہنے پر امریکا نے ڈرون حملہ کرکے ہمارے فوجیوں کو شہید کردیا ہے۔ ہیلی کاپٹر حادثہ تکنیکی وجوہات کی وجہ سے پیش نہیں آیا۔ ہیلی کاپٹر نے کریش سے پہلے ’ مے ڈے مے ڈے‘ کالز بھی دیں۔‘


لگتا ہے کہ یہ بہت دور کی کوڑی ہے لیکن اس وقت یہ افوا بھی تھی کہ مذکورہ ہیلی کاپٹر صاف موسم میں امریکی ڈرون کا نشانہ بنا تھا ، کیوں کیسے ؟ اس طرح کے سوالات ایسے سازشی نظریات کی مقبولیت اور قبولیت پر ہمیشہ بے اثر رہے ہیں۔بلوچستان کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلی اسلم رئیسانی نے بھی اپنی ایک تقریر میں بھی یہی دعوی کیا تھا کہ مذکورہ ہیلی کاپٹر ڈرون حملے کا شکار ہوا تھا ، لیکن ان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں۔البتہ B کیٹیگری میں 213 ویں نمبر پر پی ٹی آئی کے سپورٹر منیب کو اس فہرست میں اس پر سوال اٹھانے پر شامل کیا گیا ہے۔


انھوں نے اسلم رئیسانی کی ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے سوال کیا تھا ’ اسلم رئیسانی کی بات کے مطابق امریکی ڈرون نے پاکستانی ہیلی کاپٹر کو ہٹ کیا ہے ، کیا یہ سچ ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اس کا جواب کب دیا جائے گا ؟ ہم آزاد ہیں امریکا کی کیسے ہمت ہوئی ہمارے ہیلی کاپٹر کو ہٹ کرنے کی ؟‘ غالبا اس رپورٹ کو مرتب کرنے والوں نے سوال کے آخری حصے سے اخذ کیا کہ صارف سوچ رہے ہیں کہ امریکا نے بغیر اجازت ہٹ نہیں کیا ہوگا اور اجازت دینے والے باجوہ کے علاوہ کون ہوسکتے ہیں ،شاید اسے ہی کہتے ہیں کہ ’سوچ کی پر کترنا۔‘


دوسرے ممالک سے چلائے جانے والے مبینہ اکاؤنٹس کی فہرست میں پی ٹی آئی کے اعلانیہ کارکن ’ ڈاکٹر کریم پی ٹی آئی ‘ کا اکاؤنٹ سرفہرست ہے۔پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ، عقیدے کے لحاظ سے فخریہ مسلمان اور سیاسی نظریات کے لحاظ سے انصافین۔پیغمبر اسلام آئیڈیل اور عمران خان ان کے لیڈر ، یہ سب انھوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر درج کیا ہے۔ایف آئی اے کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق یہ اکاؤنٹ برطانیہ سے آپریٹ ہو رہی ہے۔آپ پوچھیں گے کہ اس میں کیا غلط ہے سارا پاکستان ہی برطانیہ سے آپریٹ ہوتا ہے۔اور غالبا یہ جانتے ہوئے اعتراض کریم صاحب کے رواں سال 2 اگست کے اس پوسٹ پر کیا گیا ہے جس میں انھوں نے لکھا تھا ’ باجوہ نومبر میں ریٹائر ہوجائیں گے اور اسی دن پاکستان اور ہماری پیاری فوج سکون کی سانس لیں گے۔‘ اس سادہ لوح کے مطابق فوج اور فوجی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔


پاکستان انڈیا کا روایتی دشمن کہلاتا ہے ،کوئی سازش ہو یا محض سازشی نظریہ اس میں اس روایتی دشمن کا نام نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔اس فہرست میں ہندوستان کے جانے پہچانے صحافی اور چند فیک اکاؤنٹس شامل ہیں۔


سمت چوہدری نئی دہلی میں رہتے ہیں اور زی نیوز کے اینکر ہیں۔ انھوں نے ہیلی کاپٹر کریش کے بعد بلوچ راجی آجوئی سنگر کے دعوے پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بلوچ نے پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس رپورٹ میں سمت چوہدری کی بلوچستان سے متعلق کیے گئے دیگر کئی پوسٹس کے بھی اسکرین شاٹس دیے گئے ہیں۔


انڈین ٹی وی 9 نیٹورک کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ادتیا راج کول کو بھی اس فہرست میں بلوچ آزادی پسندوں کے دعوے پر ٹویٹ کرنے پر شامل کیا گیا ہے اور ان کے ایسے تمام پوسٹس کو ان کے جرم کے ثبوت کے طور پر نتھی کیا گیا ہے جن میں انھوں نے بلوچستان میں آزادی پسندوں کے حملے اور عوامی احتجاج کا ذکر کیا ہے۔ میجر گورو آریا (ریٹائرڈ) بھی اس فہرست میں شامل ہیں جس کی وجہ سمجھنا آسان ہے کیونکہ میجرگورو پاکستان پر کھل کر تنقید کرتے ہیں اور سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔


یہ 18 اکاؤنٹس ایسے ہیں جن پر ایف آئی اے نے باقاعدہ چارج شیٹ بنا کر ان پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ اکاؤںٹس انڈیا سے آپریٹ ہوتے ہیں ہیں جو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ میں ملوث ہیں اور انھوں نے ’براس کا جھوٹا دعوی اپلوڈ ‘ کیا تھا۔


ان میں سے تمام افراد کے اکاؤنٹ کے ساتھ ان کے مبینہ جرائم کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ نامور صحافی سمت چوہدری پر الزام ہے کہ وہ بلوچ مسلح تنظیموں کی سرگرمیوں کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہیں ، ادتیا راج کول اور میجر گورو نے پاکستانی فوج اور مسلح فورسز کے بارے میں کچھ ٹویٹ کیے ہیں۔


ایف کیٹیگری میں ان افراد کو شامل کیا گیا ہے جنھوں نے رپورٹ کے مطابق شہدا اور فوج مخالف پوسٹس کیے ہیں۔


ایف کیٹیگری میں پہلے نمبر پر معاذ طیب نامی صارف ہیں جنھوں نے جنرل باجوہ پر تنقید کی تھی۔ ان کے پوسٹس میں لکھا ہے ’ کیا ہم کوئی غلام ہیں ؟ کیا آپ جو کہیں گے ہم کرلیں ، ابسلوٹلی ناٹ ۔‘


انھوں نے جنرل باجوہ سے استعفی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی تصویر لگا کر پوسٹ کیا تھا کسی نے ہمیں کبھی یہ بتایا ہی نہیں تھا کہ دجال سے پہلے باجوہ بھی آئے گا۔


انھوں نے ایک اور پوسٹ میں لکھا ’ الیکشن ہمیشہ کنٹرولڈ ہوگا، حکومت ہمیشہ نیوٹرلز کی رہے گی، عدالتیں کبھی آزاد نہیں ہوں گی، سوشل میڈیا یونہی چیختا رہے گا، احتجاج ہوتے رہیں گے، اگلے 30 سال یہی ہوگا اور نیوٹرلز کا راج مستقل رہے گا جب تک عوام چڑھ نہیں دوڑتے ، محلات گرا اور گریبان پھاڑ نہیں دیتے۔


ایک ہزار پانچ کی تعداد میں ٹویٹر پر فالور رکھنے والے نوجوان معاذ طیب نے فوج کو اپنی تنقید سے ہلا ہی ڈالا ہے۔یقینا اپنا نام اس فہرست میں پاکر وہ ضرور خوش ہوں گے۔


رپورٹ واضح کرتی ہے کہ پاکستانی فوج پر عوام کا اعتبار بالکل بھی نہیں۔عوام پاکستانی فوج سے نفرت کرتی ہے اور ان کے دعوؤں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے جیسا کہ ایف کیٹیگری میں تحریک لبیک کے سپورٹر حامد رضا نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو ریپلائی کرتے ہوئے کہا تھا ’ جسے خرید نہ سکو اسے مار دو‘ ۔


«اسٹیج فنکار بوٹا کا سوال : بلوچوں کو پنجابیوں جتنی سہولیات کیوں حاصل نہیں»


بوٹا ایک اسٹیج فنکار ہیں جنھوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے پروفائل پر اپنی تصویر ڈالی ہے اور نام محض بوٹا لکھا ہے۔ وہ اپنے تعارف میں لکھتے ہیں ٹویٹر دا پہلا پنجابی اکاؤنٹ،سارے ٹویٹ رائے آرا اے۔لواڈا متفق ہونا ضروری نئی۔انسانیت ، بھائی چارہ ، رواداری۔


انھوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو ٹویٹر پر ریپلائی کرتے ہوئے عمران خان کی تقلید میں ’ ام حریم ‘ پکارتے ہوئے انگریزی میں سوال کیا ڈیئر ام حریم۔۔ بلوچوں کو وہ سہولیات کیوں حاصل نہیں جو پنجابیوں کو حاصل ہیں؟ ، کیوں بحریہ اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیاں بلوچوں کے نہیں۔کیوں بلوچ دوسروں کی طرح سہولیات سے مستفید نہیں ہوسکتے۔انھیں اپنی معدنیات اور اپنے وسائل سے حصہ کیوں نہیں دیا جاتا جن پر ہیلی پائلٹس نے قبضہ کر رکھا ہے؟ مجھے آپ اور بلوچوں کے لیے افسوس ہوتا ہے۔



ذریعہ: واٹساپ + اسٹاف رپورٹر | تصویر: زرمبش ڈیزائن