ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو ,ڈرون-حملے

تحقیقاتی رپورٹ: بلوچ سرمچاروں پر پاکستان نیوی کے ڈرون حملے

تحقیقاتی رپورٹ: بلوچ سرمچاروں پر پاکستان نیوی کے ڈرون حملے

APR

17
17 / 04 / 2022 رپورٹ

پی ڈی ایف میں پڑھنے کے لیے کلک کریں 


 


Investigative report-Pakistan-Navy-drone-strikes-on-Baloch-Sarmacahrs


 


ابتدائیہ


پاکستانی فوج نے نیوی ائر اسٹیشن پی این ایس صدیق سے بلوچ سرمچاروں کے خلاف جنوری ، فروری اور مارچ کے مہینوں میں چار ڈرون حملے کیے۔


پہلے ڈرون حملے کا نشانہ چوک گیا جبکہ باقی تین ڈرون حملے مذکورہ ائراسٹیشن سے 90 کیلومیٹر کے دائرے میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے مختلف کیمپس پر ہوئے ان حملوں نے رواں سال کو بلوچ قومی جنگ آزادی میں بلوچ سرمچاروں کے نقصان کے حوالے سے سب سے زیادہ نقصان دہ سالوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔ڈرون حملوں میں صرف تین ہفتوں میں 23 سرمچار شہید ہوئے۔


ریڈیو زرمبش نے مستند معلومات حاصل کی ہیں کہ یہ ڈرون حملے تھے ، اس رپورٹ کو مختلف ذرائع سے جمع کردہ مستند معلومات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث بھی رپورٹ کا حصہ ہو۔


 


کیا یہ رپورٹ قیاس آرائیوں پر مبنی ہے؟


 رپورٹ مستند معلومات ، ویڈیو فوٹیجز اور بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے شعبہ نشر و اشاعت کی طرف سے فراہم کردہ تصاویر کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ رپورٹرزنے ان تمام تصاویر کا زیرک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔ ویڈیو فوٹیجز میں ڈرون کو اڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جس کی اس وقت فلم برداری کی گئی جب وہ پہاڑی علاقوں میں بلوچ سرمچاروں کی ٹریکنگ کر رہا تھا۔


 


 دیگر ویڈیوز اور تصاویر میں ڈرون میزائل کے استعمال شدہ خول اور دوسرے ٹکڑے ملے ہیں، تصاویر میں حملے کا نشانہ بننے والے سرمچاروں کے ہتھیار اور زیر استعمال چیزیں شامل ہیں۔سرمچاروں کے زیر استعمال ہتھیار ، چیزیں اور ان کی میتوں کے بارے میں معلومات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ حملہ ڈرون تھا۔


 


 جبکہ ہمیں ان حملوں سے قبل بھی ایک ڈرون حملے کے بارے میں مستند ذرائع سے اطلاع ملی تھی۔اس اطلاع کے مطابق تمپ کے اطراف ایک ڈرون حملہ کیا گیا تھا جو ہمارے اندازے کے مطابق تمپ اور اپسی کھن کے درمیانی علاقے میں کلبر کور کے قریب کسی مقام پر کیا گیا تھا۔جب یہ اطلاع ملی تھی تب تک بی این اے کی طرف سے یہ بیان سامنے نہیں آیا تھا کہ ان کے کیمپس پر ڈرونز حملے کیے گئے ہیں۔


 


 ڈرون حملوں سے پہلے پی این ایس صدیق میں کام کرنے والے مقامی افراد کو چھٹی پر بھیجا گیا اور ایک نئی ٹیم نے ائر اسٹیشن کے انتظامات کنٹرول کیے۔پاکستانی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجواہ کے مختصر مدت میں دو مرتبہ تربت کا دورہ ، ریجن میں اںٹلی جنس صورتحال کے جائزہ کے لیے اجلاس میں اس نئی حکمت عملی پر غور کیا گیا اور ضروری انتظامات کی منظوری دی گئی۔


مقامی آبادی نے بھی پی این ایس صدیق سے ڈرونز کے اڑان کے بارے میں اطلاع دی ہے۔


 پہلا ڈرون حملہ جس نے مغرب کی طرف ایرانی سیکورٹی فورسز کو بھی چوکنا کردیا


 26 جنوری 2022 کو پہلا ڈرون حملہ تمپ کے علاقے میں ایرانی زیر انتظام مغربی بلوچستان کی سرحدوں کے قریب کیا گیا۔اس کے بعد ان علاقوں میں ہیلی کاپٹرز اور جاسوس جہازوں کی غیر معمولیں پروازیں دیکھی گئیں۔یہ حملہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے پاکستانی فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کے ایک خاص کیمپ پر حملے کے عین دوسرے دن ہوا تھا۔معرکہ سبدان ، جنگی تاریخ میں ایک خطرناک حملہ مانا جاتا ہے جس میں پاکستانی فوج کے 27 اہلکار ہلاک اور چار لاپتہ ہوئے۔


 


 اس کے فورا بعد ہونے والی ان سرگرمیوں کو معرکہ سبدان کا ردعمل سمجھا گیا۔ڈرون حملے کی اطلاع ملنے کے باوجود ریڈیو زرمبش کے اسٹاف رپورٹرز نےمستند ذرائع سے حاصل ہونے والی اس خبر کو ایک جنگی افوا سمجھتے ہوئے شائع کرنے سے گریز کیا۔


 دوسرا ڈرون حملہ


 16 فروری 2022 کی صبح ایک ناقابل یقین حملے میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے کلبر ، تمپ ضلع کیچ میں واقع ایک کیمپ کے 6 سرمچار شہید ہوئے۔یہ انتہائی غم انگیز اور دل ہلادینے والی خبر تھی۔اس وقت کہ جب بلوچ سرمچاروں نے دشمن پر کئی کمر توڑ حملے کیے تھے۔ بلوچ سرمچاروں کی شہادت نے جانی نقصان کے حوالے سے توازن کو پلٹ دیا تھا۔یہ سب اس دوران ہوا تھا جب کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ ایک بھی بلوچ سرمچار کو جانی نقصان کا سامنا ہو۔ دشمن فوج کا مورال بری طرح متاثر ہے ، ایف سی اہلکار لڑنے کی بجائے بھاگ جانے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں یہی چرچا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچ سرمچاروں کے سامنے اپنی بھرپور طاقت کے باوجود ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔


 نازک ترین اور انتہائی کشیدہ حالات میں بھی اسے ایک عام فضائی حملہ سمجھا گیا شاید اس حملے کو ایک اتفاقیہ حادثے یا پاکستانی فوج کی انٹلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا کامیاب حملہ سمجھا جاتا لیکن تیسرے ڈرون حملے نے اس بات کو طشت از بام کردیا کہ پاکستانی فوج نے اپنے حملوں کی تکنیک میں نمایاں طور پر تبدیلی کی ہے۔


 دوسرا حملہ پہلے حملے کے مقام کے انتہائی قریب کیا گیا ، پہلا حملہ جس کا نشانہ چوک گیا تھا شاید وہ بھی اسی کیمپ پر کیا جانا تھا جس کی تب تک کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دی گئی۔


 تیسرا ڈرون حملہ


 23 فروری ، سورج ابھی تک پورے آب و تاب سے نہیں نکلا تھا۔ساتک کور، ھوشاپ ، ضلع کیچ میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے کیمپ میں سرمچار روزانہ کی معمولات کی انجام دہی کے لیے اکھٹے ہو رہے تھے۔ کیمپ میں عام گھروں کی طرح ناشتے کا خاص اہتمام نہیں ہوتا لیکن بغیر دودھ کی چائے بنتی ہے اور سرمچار ایک دوسرے کے ساتھ صبح کا وقت اکھٹے گزارتے ہیں۔ کیمپ میں 12 سرمچار موجود تھے۔ دو حفاظتی مورچے پر تعینات تھے جہاں ان کا کام بیک وقت اطراف اور اپنے کیمپ پر نظر رکھنا تھا۔


 کوئی غیر معمولی چیز نظر نہیں آئی ، لیکن ان سے ذرا فاصلے پر دوسرے ساتھیوں پر ایک فضائی حملہ ہوچکا تھا ۔ اس سے پہلے کوئی آواز نہیں ، فضاء میں ایسی کوئی چیز نہیں جس سے حملے کا شک ہوتا اور سرمچار چھپنے کے لیے منتشر ہوتے۔ان میں سے ایک سرمچار اونچے ٹیلے سے نیچے اترا تاکہ اپنے ساتھیوں کی مدد کو پہنچ سکے۔


 گرد کا بادل اڑ رہا تھا اور اس دھوئیں میں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔وہاں سے گولیوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں ، اس حملے میں زندہ بچنے والے سرمچار نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس نے آوازیں سنی ہیں کہ گولیاں مت چلائیں یہاں کوئی موجود نہیں ، ہماری گولیاں ہمیں ہی لگیں گی۔


 ان حملوں کے پانچ سے دس منٹ کے درمیان وہاں پر ہیلی کاپٹرز آگئے۔


 بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ نے ا س حوالے سے اپنے بیان میں کہا 23 فروری کو ھوشاپ کیچ کے پہاڑی سلسلے ساتک کور میں تنظیم کے گوریلا کیمپ پر قابض پاکستانی ڈرون نے تین میزائل فائر کیے جو کیمیکل مواد سے لوڈ تھے جنھوں نے ایک بڑے رقبے پر تباہی مچا دی، مذکورہ جگہ پر کھجور کے باغات اور دیگر پودے مکمل جھلس گئے۔


 مرید کے مطابق ڈرون میزائل حملوں کے بعد قابض کے پیدل فورسز نے کیمپ کو چاروں اطراف سے گھیرنے کی کوشش کی اور آٹھ سے زائد ریاستی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اہلکار کیمپ کے داخلی راستوں پر اتارے گئے۔


 اس حملے میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے 10 سرمچار شہید ہوئے۔


 چوتھا ڈرون حملہ


 بدقسمت ترین سال کا یہ چوتھا حملہ بھی بی این اے کے کیمپ پر کیا گیا۔ یہ کیمپ پسنی ضلع گوادر اور ھوشاپ ضلع کیچ کے درمیان آبادی سے میلوں دور اندر تک پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے کیمپ پر کیا گیا جسے بی این اے کمانڈ کی طرف سے جاری کردہ نئے ایس او پیز (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر )کے مطابق ایک محفوظ کیمپ سمجھا جا رہا تھا۔


 کیمپ موبائل نیٹورک سے دور تھا، کیڈرز کی اندرونی نگرانی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔لیکن شاید چند اہم اقدامات اٹھانے ابھی باقی تھے جن میں تمام دوستوں کا ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھنے کی بجائے قریب قریب موجود ہونا نقصان میں اضافے کا باعث بنا۔


 آٹھ مارچ کو ہونے والے اس حملے میں بی این اے سے وابستہ 7 سرمچار شہید ہوئے۔


 بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ نے اپنے بیان میں کہا آٹھ مارچ کو ھوشاپ اور پسنی کے درمیانی پہاڑی سلسلے میں قائم تنظیم کے گوریلا کیمپ پر پاکستانی ڈرون نے تین میزائل فائر کیے جس کے بعد فورسز نے ہیلی کاپٹروں سے مذکورہ کیمپ کے اطراف کمانڈو اتارنا شروع کر دیے۔


 بی این اے پر ہونے والے پے در پے حملوں نے نہ صرف بی این اے کے کمانڈ کو نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے بلکہ یہ سوال تمام آزادی پسند تنظیموں کے لیے ایک ایسی گتھی ہے جسے سب مل کر سلجھانا چاہیں گے۔


 ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے کیمپس کے درمیان فاصلہ اور حملوں کے درمیان وقفے


 پہلا ڈرون حملہ 26 جنوری کو ہوا تھا۔یہ ڈرون حملہ مغربی بلوچستان سے 25 کیلومیٹر کے فاصلے پر اپسی کھن تحصیل تمپ ضلع کیچ کے قریب نامعلوم پہاڑی علاقے میں ہوا تھا چونکہ یہ حملہ اپنے ہدف پر نہیں گرا تھا اس لیے اس کے مقام کے بارے میں درست معلومات دستیاب نہیں۔


 اور 21 دن بعد 16 فروری 2022 کو پہلے حملے کے مقام سے 10 سے 15 کیلو میٹر کے فضائی فاصلے پر کلبر کور میں عین اس جگہ پر دوسرا حملہ ہوا جہاں بلوچ نیشنلسٹ آرمی کا کیمپ تھا۔

ایک حملے سے دوسرے حملے کا دورانیہ 21 دن کا تھا۔اس دوران ان علاقوں میں مسلسل فضائی گشت جاری رہا ، ہمیں اس دوران ہیلی کاپٹرز کے اڑان کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔ جن میں تصاویر اور ویڈیو فوٹیجز بھی شامل تھے۔میزائل کا ہدف سے 10 سے 15 کیلومیٹر ہٹ کر کسی دوسرے مقام پر گرنا ایک خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کہ کسی معمولی غلطی کے نتیجے میں ڈرون میزائل اپنے ہدف سے ہٹ کر نہ صرف مقامی آبادی کی طرف مڑ سکتا ہے بلکہ ایرانی زیر انتظام علاقوں کی طرف بھی نکل سکتا ہے۔


 اب یہاں کچھ اور معلومات ہمارے پاس ہیں کہ اس دوران کئی پہاڑی آؤٹ پوسٹس خالی کیے گئے ، یہ رجحان گذشتہ کافی عرصے سے نظر آ رہا ہے کہ پاکستانی فوج پہاڑی آؤٹ پوسٹس خالی کر رہی ہے بظاہر یہ حکمت عملی بلوچ سرمچاروں کے شدید حملوں اور آؤٹ پوسٹس پر قبضے کے بعد اختیار کی گئی تھی لیکن اسے اپنے ہی ڈرون حملوں کے ہدف سے بچنے کے لیے بھی ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے گوکہ آؤٹ پوسٹس بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی ختم کیے گئے ہیں، لیکن اس پہلو پر بھی قیاس آراہی کی جاسکتی ہے۔


 تیسرا ڈرون حملہ دوسرے ڈرون حملے کے صرف 7 دن بعد 23 فروری 2022 کو دوسرے ڈرون حملے کے مقام سے تقریبا135 کیلو میٹر دور ساتک کور ، تحصیل ھوشاپ ، ضلع کیچ کے مقام پر بی این اے کے کیمپ پر ہوا۔


 اور چوتھا ڈرون حملہ تیسرے ڈرون حملے کے 13 دن بعد 8 مارچ 2022 کو تیسرے ڈرون حملے کے مقام سے تقریبا 50 کیلومیٹر کے فضائی فاصلے پر ھوشاپ اور پسنی کے درمیان آبادی سے دور ایک پہاڑی علاقے میں بی این اے کے کیمپ پر ہوا۔


پہلے اور چوتھے حملے کے درمیان تقریبا 210 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے۔


 ڈرون حملے جہاں سے کیے گئے


 پاکستان نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں جیمڑی، گوادر ، پسنی ، ھورماڑا اور ھورماڑا پسنی کے درمیان کلمت کے مقام پر نیول بیس قائم کیے جبکہ سن 2000 میں جناح نیول بیس کے نام سے ھورماڑا میں پاکستان نیوی کا دوسرا بڑا جنگی بحری اڈہ قائم کیا گیا۔ھورماڑا میں پاکستان نیوی کے پاس 3000 میٹر طویل نیا رن وے جبکہ 2000 میٹر پرانا رن وے بھی موجود ہے۔اپریل 2014 کو پاکستان نیوی نے اعلان کیا کہ وہ ڈیزل الیکٹرک آبدوزوں کے پورے بیڑے کو ھورماڑا منتقل کر رہا ہے۔


 اگست سن 2014 کے آخر تک پاکستان نیوی کے صرف دو ائراسٹیشن تھے ،سن 1975 میں پی این ایس مہران کراچی اور سن 1988 میں پی این ایس مکران پسنی کو فعال کیا گیا تھا پی این ایس مکران 6.5 اسکوائر کیلومیٹر رقبے پر بنایا گیا ہے ، اس کے ذمے گوادر پورٹ کو سیکورٹی کور دینا بھی شامل ہے۔جبکہ پی این ایس صدیق پاکستان نیوی کا تیسرا ائراسٹیشن ہے جس کا نام وائس اڈمرل حاجی محمد صدیق چودہری کے نام پر رکھا گیا۔


 PNS-Siddiq-Turbat01


سب سے جدید نیوی ائر اسٹیشن پی این ایس صدیق تربت ہے جس کے ذمے گوادر پورٹ اور سی پیک روٹ کی سیکورٹی بھی شامل ہیں۔پی این ایس صدیق تربت کا 3 ستمبر 2014 کو باقاعدہ افتتاح کیا گیا تھا۔جو کہ کراچی جیسے پر ہجوم شہر سے دور ہے، یہ ائربیس پاکستان نیوی کے جنگی اثاثوں کو کراچی سے منتقل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔یہ 30 اسکوائر کیلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ سن 1971 کی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ میں کراچی میں بھارتی فضائیہ کے حملوں کے بعد سے یہ منصوبہ بندی کی جا رہی تھی کہ ان اثاثوں کو بھارتی حملوں کی رینج سے دور کیا جا ئے۔


 PN-Aircrafts


 پاکستان نیوی کا مذکورہ ائر اسٹیشن تربت ائرپورٹ سے متصل ہے ، یہاں سے گوادر کا زمینی فاصلہ 160 کیلومیٹر ہے جو دو گھنٹے 8 منٹ کے ڈرائیو پر ہے۔ھورماڑا 337 کیلومیٹر کے فاصلے پر 3 گھنٹے 47 منٹ کے ڈرائیو پر ہے جبکہ پسنی 90 کیلومیٹر کے فاصلے پر۔یہ سمندر سے اس نیول بیس کا زمینی فاصلہ ہے۔


 تربت نیول بیس سمندر سے دور ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہے کیونکہ عام طور نیوی کا مطلب ایک سمندری فورس لیا جاتا ہے جس کے بیسز ساحل پر بنائے جاتے ہیں جبکہ یہ ائر اسٹیشن کچھ فاصلے پر بنایا گیا ہے۔پی این ایس صدیق کا گوادر اور ھورماڑا تک فضائی سفر کا دورانیہ تقریبا یکساں ہے۔تربت سے گوادر کا فاصلہ 59.09 ناٹیکل میل ہے (109.43 کیلو میٹر) جسے جیٹ طیارے 8 منٹ میں طے کرسکتے ہیں جبکہ ھورماڑا کا فاصلہ 95 ناٹیکل میل (175 کیلومیٹر) ہے اور یہ فاصلہ جیٹ طیارے 12 منٹ میں طے کرسکتے ہیں۔


 


 تربت میں پاکستان نیوی کے رن وے کی لمبائی 1829 میٹر (6000ft)ہے جو کہ پاکستان نیوی کے جہاز P-3C Orion کے اڑان کے لیے زیادہ ہے۔ان جہازوں کے اڑان کے لیے 4250ft لمبا رن وے ہی کافی ہے۔


 تربت سمندر سے دور ایک سنگلاخ علاقہ ہے لیکن جہاں پر یہ نیول بیس قائم کیا گیا ہے یہ پاکستان کی مغرب کی سمت تزویراتی پھیلاؤ کا اشارہ بھی ہے اور اپنے جنگی اثاثوں کو بھارت کے حملوں سے سے بچانے کی کوشش بھی۔


 اس ائراسٹیشن کے افتتاح کے موقع پر اس وقت پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا پی این ایس صدیق کی فعالیت سے بحر بلوچ (بحیرہ عرب) میں پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں بہتر ہوں گی اور مغرب کی سمت اس کے اسٹرٹیجک مفادات مستحکم ہوں گے۔


 تربت ائربیس میں پاکستان نیوی کے UAV ھینگر (ائر کرافٹس رکھنے کی جگہ) کی سیٹلاہٹ تصاویر سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ تربت ائربیس میں مسلح ڈرون اڑانے کا انتظام موجود ہے۔


 پاکستان کے پاس موجود ڈرونز


 مقامی سطح پر تیار کردہ مسلح ڈرونز


 پاکستان نے 7 ستمبر 2015 کو اپنے بنائے گئے ان میننڈ کامبیٹ ائریل ویکل (UCAV) کا پہلی مرتبہ شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں فوجی کارروائی کے دوران استعمال کیا اس ڈرون حملے کے نتیجے میں پاکستانی فوج اسرائیل، امریکا اور برطانیہ کے بعد مسلح ڈرون استعمال کرنے والا چوتھا ملک بن گیا۔


 پاکستانی افواج کے پاس اس وقت لگ بھگ 28 اقسام کے ڈرونز موجود ہیں جنھیں پاکستان مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔


 1997 سے لے کر 1981 کے درمیان پاکستان نے مقامی سطح پر اپنا یو اے وی پروگرام کا آغاز کیا یہ وہ وقت تھا جب بھارت نے اسرائیل سے Searcher Mk 1 UAV درامد کرنے کا منصوبہ بنایا جبکہ بھارت کی طرف سے اس سے پہلے ہی مقامی سطح پر یو اے وی بنانے کے لیے ریسرچ اور ڈولمپنٹ کوششوں کا آغاز ہوچکا تھا۔


 ابتدائی طور پر پبلک سیکٹر میں پاکستان کی دو کمپنیوں نے حصہ لیا۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس (PAC ) اور ایرویپن کمپلیکس (AWC) اس کے بعد ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنگ انجینئرز (ACES ) ، انٹیگریٹڈ ڈائنامکس ، سرویلنس اینڈ ٹارگٹ ان میننڈ ائرکرافٹس (SATUMA) ، گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشن (GIDS) اور دیگر نے بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کی۔


 ٹارگٹ ڈرون سے لے کر اقسام اور درجہ بندی کے لحاظ سے پاکستان کے پاس مختلف رینجز اور انڈورینس ( مسلسل پرواز کی اہلیت۔ Endurance)کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے یو اے وی ہیں۔رینج بریکٹ 6 سے 8 کیلومیٹر سے لے کر 300 سے 350 کیلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے جن کی مسلسل پرواز کی اہلیت (انڈورینس) کچھ منٹ سے لے کر 8 سے لے کر 14 گھنٹے تک ہے۔


 براق کی بطور یو سی اے وی (ان میننڈ کامبیٹ ائریل ویکل) تبدیلی کا عمل مارچ 2015 کو مکمل ہوا۔07 ستمبر 2015 کو اسے پہلی بار شوال میں استعمال کیا گیا۔اس حملے میں طالبان کے تین اہم ارکان مارے گئے۔اس کے بعد آپریشن خیبر کے نام سے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں کئی حملوں میں اس کا استعمال کیا گیا۔


 چین کے بنائے گئے ڈرونز


 اکتوبر 2018 کو ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ چین پاکستان کو 48 کی تعداد میں ونگ لانگ ٹو نامی جدید مسلح ڈرون فراہم کرئے گا۔ مزید اس بارے میں معلومات شائع کیے گئے کہ یہ براہ راست فروخت کا معاملہ نہیں بلکہ یہ چین کی ریاستی کمپنی ایوی ایشن انڈسٹری کارپوریشن آف چائنا (AVIC) اور پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس (PAC) کے درمیان مشترکہ پیدوار کا معاہدہ ہے۔یہ ایک طرح سے ٹی او ٹی (ٹرانسفر آف ٹکنالوجی) معاہدہ ہے۔


 ونگ لانگ ٹو ایک درمیانی درجے کی طویل عرصے تک پرواز کی اہلیت رکھنے والا اٹیک ڈرون ہے جسے چنگڈو ائرکرافٹ انڈسٹری گروپ نے تیار کیا اس کی رینج 4000 کیلو میٹر اور اس کی مسلسل پرواز کی اہلیت 20 گھنٹے ہے اور حد رفتار 370 کیلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ ونگ لانگ ون کا اپ گریڈ ورژن ہے جس میں ایرو ڈائنامک ڈیزائن ، بہتر ائر فریم اور اپ گریڈ شدہ ائر بورن سسٹم ہے جو پرواز ، پے لوڈ اور انفارمیشن کیپسٹی کی حامل ہے اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن سسٹم (SATCOM) سے لیس ہے۔اس کا الیکٹرو آپٹیکل پے لوڈ پیڈ فوسیلج کے فارورڈ سیکشن کے نیچے نصب ہے جو دن کی روشنی اور انفراریڈ کیمروں اور سینسروں کے ساتھ مربوط ہے تاکہ دن اور کم روشنی / رات دونوں میں نگرانی اور ٹارگٹنگ ڈیٹا اکھٹا کیا جاسکے۔


 یہ فضاء سے زمین تک مار کرنے والے 480 گرام پے لوڈ لے جاسکتا ہے جو گائیڈڈ بارودی مواد ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ FT 7- 130 kg بمع پلانر ونگ ، FT 9 - 50 kg بم ،FT 10 - 25 kg بم ، ریڈیو کمانڈ کی بنیاد پر GB10 نامی فلیئر سیکر بم (انفرا ریڈ گائڈنینس موڈ کی بنیاد پر) ، فضاء سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور گائڈڈ راکٹس۔


 جنگی اثاثوں کے ماہر لیفٹینینٹ وی کے سکسینا (ریٹائرڈ) کے مطابق دو طرح کے میزائل اور راکٹس ہیں ایک سوفٹ ٹارگٹس کے لیے اور دوسرا بکتر بند اہداف کے لیے۔ سوفٹ ٹارگٹ میں بنکر، قلعے اور گاڑیوں کے لیے AKD-10 میزائل موزوں ہے جبکہ BRM 1 راکٹ جو کہ نیم فعال لیزر گائیڈنس پر مبنی ہے جس کی رینج 8 کیلومیٹر ہے اور یہ زمینی فوج کے پیدل دستے ، بکتر بند گاڑیوں اور بڑے اہداف کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے جیسا کہ ائرڈیفنس سسٹم اور آرٹلری کے خلاف موزوں ہے۔


 میزائل کے حوالے سے اس نوع کے یو سی اے وی زمین سے فضاء تک 12 گائڈڈ لیزر میزائل یا YJ9E انٹی شپ میزائل استعمال کرسکتے ہیں۔ ونگ لانگ زمین سے فضاء تک مار کرنے والے چائنا کے بنے BA-7 میزائل بھی اٹھا سکتا ہے ،YZ212 لیزر گائڈڈ کلسٹر بم ، YZ102A کلسٹر بم اور پچاس کیلو وزن کے LS-6 چھوٹے گائیڈڈ بم۔


 ترکی کے ڈرون


 ڈرون ٹکنالوجی میں پاکستان کی دلچسپی اور اس ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کی خواہش کی کوئی حد نظر نہیں آتی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگست 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکش ایرو اسپیس انڈسٹریز (TAI) نے پاکستان کے نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنس کمیشن (NESCOM) کے ساتھ مشترکہ طور پر انکا ملٹری ڈرون تیار کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔


 8 میٹر لمبے اس ائر کرافٹ کی حد رفتار 217 کیلومیٹر فی گھنٹہ ہے اس کی حملہ کرنے کی رینج 200 کیلومیٹر اور سیلنگ (ceiling) نو ہزار ایک سو چورالیس میٹر ہے اور یہ 350 کیلومیٹر سے زائد پے لوڈ اٹھا سکتا ہے۔اور یہ میزائل MAM لیزر گائڈڈ میزائل، سریٹی لیزر گائڈڈ 70 ایم ایم میزائل سسٹم اور بوزوک منی لیزر گائڈڈ راکٹ اٹھانے کے لیے موزوں ہے۔


 11 مارچ 2022 کو رپورٹ ہونے والی ایک خبر کے مطابق پاکستان کے پاس ترکی کے بنائے گئے Bayraktar TB2 ڈرونز موجود ہیں۔یہ ڈرون یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ، آزربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہونے والی جنگ میں استعمال ہوچکے ہیں۔


 یہ ڈرون پاکستان ائر فورس کے ریلیز کیے گئے ایک ویڈیو میں دیکھے گئے ہیں اس ویڈیو میں Bayraktar Akinci drone بھی دیکھے گئے ہیں۔


 کہا جاتا ہے یہ ایک کامیاب اور سستا ڈرون ہے جس سے امریکا ، روس اور برطانیہ سمیت بھارت بھی کافی پریشان ہے۔


 اس کی لمبائی 6.5 میٹر ، پروں کی لمبائی 12 میٹر ، پے لوڈ کی صلاحیت 150 کیلو گرام ، اس میں 300 لیٹر گیسولین بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ اس کی حد رفتار 220 کیلومیٹر فی گھنٹہ ، رینج 150 کیلومیٹر ، 8200 میٹر تک بلند ہونے (Service ceiling) کی صلاحیت کا حامل ہے اور لگاتار 27 گھنٹے تک پرواز کرسکتا ہے۔


 چار لیزر گائیڈڈ میزائل سمیت دیگر میزائل اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔


 مزید سوالات اور ان کے ممکنہ جوابات


 کئی سوالات اس وقت سب کے ذہن میں موجود ہیں جن کے درست جوابات میں سے اب تک ہمیں صرف تین ہی درست جواب مل چکے ہیں ’ یہ ڈرون حملے تھے، ان حملوں میں پاکستان نیوی کا ائراسٹیشن پی این ایس صدیق استعمال ہوا ہے اور یہ حملے کیمپس کے مقامات کی درست معلومات حاصل کرنے کے بعد کیے گئے جن سے بلوچ سرمچاروں کو غیرمعمولی جنگی نقصان کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کے علاوہ ڈرون ٹکنالوجی کیا تھی، کس نوع کے میزائل استعمال کیے گئے، کیمپس سے متعلق درست معلومات تک کیسے رسائی حاصل کی گئی یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا چنداں آسان نہیں۔


 البتہ بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے اندرونی ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں ان کے کیمپس پر تھرمو بیرک بم کا استعمال کیا گیا۔جسے ویکیوم بم بھی کہا جاتا ہے یہ وہی بم ہے جسے روس یوکرین کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ یہ اردگرد سے آکسیجن کو چوس کر شدید گرمی پیدا کر تا ہے۔


 یہ عام طور پر دھماکے کی لہر پیدا کرتا ہے اور روایتی دھماکہ خیز مواد کے مقابلے میں ان کا اثر طویل ہوتا ہے اور انسانی جسم کو بخارات بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔


 یہ بم دو مراحل میں پھٹتے ہیں پہلا ، ایندھن یا دھول جیسا مواد ہوا میں منتشر ہوکر دھند بنتا ہے، پھر اس گرد میں ایک طاقتور جھٹکا پیدا کرنے کے لیے دھماکا ہوتا ہے۔اس سے دھماکے کی رینج میں موجود لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں اور عمارتوں کو نقصان پہنچتا ہے۔


 اس سے بم کے نشانے پر آنے والے افراد کے کان کے پردے پھٹ سکتے ہیں ، ان کو اندرونی چوٹیں آسکتی ہیں، کان کے اندرونی اعضاء متاثر ہوسکتے ہیں، پھیپھڑے پھٹ سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر اندھا پن ہوسکتا ہے۔


 پاکستان نیوی کے ڈرون اور حالیہ حملوں کی رینج 


 ایسی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان زمینی فوج کے ذریعے بلوچ جہد آزادی کی تحریک کو قابو کرنے میں ناکامی کے بعد اپنی بھرپور فضائی طاقت کو استعمال نہیں کرئے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ حالیہ حملے پاکستان نیوی کے پاس موجود دیسی ساختہ عقاب ٹو کے ذریعے کیے گئے ہیں۔


 عقاب ٹو کی رینج 100 کیلومیٹر ہے ، 6 گھنٹے تک مسلسل پرواز کرسکتا ہے اور 20 کیلوگرام تک پے لوڈ اٹھا سکتا ہے۔اس میں کلر ڈے کیمرہ اور ٹارگٹ ٹریکنگ کے لیے تھرمل امیجر نصب ہے۔یہ ڈرون گراؤنڈ کنٹرول اسٹیشن کو ریل ٹائم ویڈیو بھیج سکتے ہیں۔


 اس کے پروں کی لمبائی 18 فیٹ ، وزن 200 کیلوگرام سے زیادہ اور 10 ہزار فیٹ سے اوپر پرواز کرسکتا ہے۔اس ڈرون کو اڑنے کے لیے عام طیاروں کی طرح رن وے کی ضرورت ہے۔ایک ٹرک میں اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میکنزم انسٹال کیا جاتا ہے ۔


 پاکستان نیوی کے ریٹائرڈ وائس اڈمرل جاوید اقبال کے مطابق عقاب ٹو کی صلاحیتیں P3C Orion کی صلاحیتوں سے قریب تر ہیں جنھیں ایک حملے میں 22 مئی 2011کو پی این ایس مہران بیس میں تباہ کردیا گیا۔عقاب شارٹ رینج مشن کے لیے مفید ہیں۔


 پاکستان نیوی کے تربت ائر اسٹیشن میں بھی پی تھری سی اوریئن جہاز موجود ہیں اور ایک ایسی عمارت کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جسے ڈرون ھینگر اور ساتھ ہی گراونڈ کنٹرول سسٹم کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔


 حالیہ تمام حملے 100 کیلومیٹر کی رینج میں کیے گئے ہیں۔ پہلا حملہ پی این ایس صدیق سے 84 کیلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہدف پر کیا گیا۔ دوسرا حملہ پی این ایس صدیق سے 79 کیلومیٹر کے فاصلے سے کیا گیا۔ تیسرا حملہ 90 کیلومیٹر کے فاصلے سے کیا گیا جبکہ چوتھا حملہ پی این ایس صدیق سے 75 کیلومیٹر کے فاصلے پر کیا گیا۔چوتھے حملے کا پوائنٹ پی این ایس مکران سے بھی لگ بھگ اتنا ہی ہے۔


 ڈرون حملوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات


 ڈرون حملوں سے بچاؤ کے طریقے قدرے مشکل ہیں کیونکہ ڈرون ہزاروں کیلومیٹر اوپر فضاء سے زمین پر حملے کرتے ہیں۔اس لیے سب سے ضروری ہے کہ بلوچ سرمچار اپنے تمام کیمپس کی جگہ کو تبدیل کریں، ہمیشہ متحرک رہیں ، درختوں کے درمیان رہائشی جگہ بنانے کی بجائے زیادہ محفوظ مقام پر ٹھکانہ بنائیں، گارڈز کے پاس جاسوس ڈرونز کو مار گرانے کے لیے تربیت اور بہتر رینج کے ہتھیار اور دوربین موجود ہوں ۔کیڈرز کو پابند بنایا جائے کہ وہ پہلے سے موجود ایس او پیز پر زیادہ سختی سے عمل کریں اور جتنا بھی ممکن ہوسکے وہ دشمن کے لیے ایسے نشانات نہ چھوڑیں جن کے ذریعے ان کے کیمپس کے بارے میں فضائی جائزے سے معلوم ہوسکے۔کیمپ میں معمول کی جگہ پر اجتماع کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ ممکنہ حملے کی صورت جانی نقصان کو کم رکھا جاسکے۔کم روشنی میں اور پیدل سفر کو ترجیح دی جائے سفر کے دوران بھی ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھا جائے۔کیمپ میں معمول کے سرکلز کے لیے رات کا وقت چنا جائے۔ جنگی اثاثوں کو ایک جگہ رکھنے کی بجائے پھیلایا جائے۔کمانڈز تمام کیڈرز کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ اور کیمپ کے مقام کی تبدیلی کا دورانیہ جتنا بھی مختصر رکھنا ممکن ہو مختصر کیا جائے۔ روابط کی جانچ کی جائے۔دشمن کے ائراسٹیشنز پر گہری نظر رکھی جائے اور تمام معلومات کو مربوط بنیادوں پر حاصل کرکے ان کی جانچ کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ تمام تنظیموں کے درمیان انٹلی جنس شیئرنگ کا نظام وضع کرکے اسے روزانہ کی بنیاد پر فعال کرکے اس کی معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت کو ترقی دینے پر کام کیا جائے۔ڈرون ایک کمپیوٹک مشین ہے جو ریڈیو ، جی پی ایس ، وائی فائی اور انفرا ریڈ کی مدد سے کام کرتا ہے اس لیے اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرکے اس کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔