ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

فلاحی ادارے سیلابی صورتحال میں سرکاری اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں-خصوصی رپورٹ

فلاحی ادارے سیلابی صورتحال میں سرکاری اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں-خصوصی رپورٹ

AUG

05
05 / 08 / 2022 رپورٹ

ھب : بلوچستان میں سیلاب کے نتیجے میں نقصانات کی سرکاری سطح پر درست تخمینہ اپنی جگہ ابھی تک متاثرہ علاقوں کے بارے میں درست معلومات کا بھی فقدان ہے۔بلوچستان کا ضلع لسبیلہ حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔بی وائی سی کراچی ان فلاحی تنظیموں میں شامل ہے جو ایک وسیع علاقے میں متاثرہ افراد کی مدد کے لیے کوشاں ہے۔


’لاکھڑا میں سات سو لوگ پانی میں بہہ گئے-حفیظ بلوچ‘


کاٹھور، ضلع ملیر ، کراچی ، سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن حفیظ بلوچ جوکہ عوامی ورکر پارٹی کے ممبر ہیں بھی لسبیلہ میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پیش پیش ہیں۔حفیظ بلوچ مسلسل سوشل میڈیا پر اپنے پوسٹس میں سیلاب زدگان کے بارے میں چشم کشا حقائق بیان کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق سرکاری اعداد و شمار حقیقت کے قریب نہیں۔


جمعرات کو انھوں نے لاکھڑا ، لسبیلہ کے گاؤں سدوری کی کچھ تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ لاکھڑا کا علاقہ سدوری چاروں طرف سے پانی میں گرا ہوا ہے زمین دلدل بن چکی ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ وہاں سات سو لوگ پانی میں بہہ گئے ہیں۔


حفیظ بلوچ نے حکام سے اپیل کہ ہے کہ وہ سدوری تک رسائی ممکن بنائیں۔


Lasbela


’ رحم کریں ، امدادی سامان نہ دیں مگر ریسکیو کریں-آمنہ بلوچ‘


اس سے قبل بی وائی سی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے حکام سے اپیل کی تھی کہ اگر وہ لوگوں کو خوراک اور شلٹر کی فراہمی میں مدد نہیں کرسکتے تو صرف انھیں ریسکیو ہی کیا جائے تاکہ ان تک امداد رسانی کے لیے رسائی ممکن ہوسکے۔


انھوں نے کہا تھا حکام تھوڑا ہم پر رحم کریں، راشن نہ دیں، ادویات نہ دیں مگر ہمارے لوگوں کو ریسکیو کریں۔ آپریشنز کے لیے ہیلی کاپٹر تو بلوچستان میں ہیں مگر ہمارے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر نہیں ہیں۔ شہبازشریف نے فضائی دورہ کرکہ فارمیلٹی پوری کی۔


’متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو بغیر کفن کے دفن کیا گیا‘


بی وائی سی فلڈ ریلیف کمپئن کے ٹیم ممبر چنگیز بلوچ اس وقت لسبیلہ کے علاقے چانکارہ میں موجود ہیں ، جہاں سندھ کے شہری ہجرت کرکے جھگیوں میں رہ رہے ہیں۔ چنگیز بلوچ نے وہاں کی صورتحال کے بارے میں بتایا ہے یہ علاقہ بری طرح متاثر ہے۔انھوں نے کہا کہ لوگ امدادی سرگرمیوں میں نظم و ضبط کا خیال نہیں رکھ رہے جس سے انھیں امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔


چنگیز نے بتایا کہ ہم شدید متاثرہ علاقوں تک گاڑیوں کے ذریعے نہیں پہنچ پا رہے لیکن ہم لوگوں کو پیدل راستے سے بلاکر انھیں امداد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آج ندی میں ریلہ آیا ہے جس کی وجہ سے ہم ان لوگوں کو نہیں بلا سکے۔


بی وائی سی کے مطابق ان کی چار ٹیمیں اس وقت ضلع لسبیلہ کے متاثرہ علاقوں بیلہ، لاکھڑا ، گدڑی اور گرد نواح میں کام کر رہی ہیں۔


بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے انفارمیشن سیکریٹری بالاچ بھی علاقے کی صورتحال کا جائزہ لینے اور امدادی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے لیے وہاں موجود ہیں۔


انھوں نے صورتحال بتاتے ہوئے کہا ایک مہینہ ہونے کے باوجود ان علاقوں میں سرکاری سطح پر کوئی امداد نہیں بھیجا گیا۔ لوگون کے گھر گر چکے ہیں۔بچے اور دیگر افراد گندا پانی پی رہے ہیں جس سے ان کی صحت کا خطرات لاحق ہیں۔


انھوں نے کہا جو حکام بلوچستان کے وسائل پر نظریں گاڑ کر بیٹھے ہیں وہ بلوچستان کے لوگوں کی حالت زار پر بھی غور کریں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔


حفیظ بلوچ جو اس ساری صورتحال پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر تصاویر کے ساتھ ان حالات سے آگاہ کر رہے ہیں۔انھوں نے ایسی تصاویر شیئر کی ہیں جس میں دیکھا جاسکتا ہے بچوں کے چہرے اور جلد کے دیگر حصے پھوڑوں سے متاثر ہیں۔


حفیظ کہتے ہیں لسبیلہ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں جلد کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔یہاں خواتین ، بچے اور بزرگ انتہائی بری حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔


’’ لسبیلہ کے علاقے لاکھڑاا، اورکھی اور گرد و نواح کے علاقے پانی سے گھرے ہوئے ہیں جس سے 60 فیصد افراد کو امدادی سامان تک رسائی حاصل نہیں اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو مزید وبائی امراض پھیل سکتے ہیں۔‘‘


ثناء اللہ فراز لاکھڑا لسبیلہ کے رہائشی ہیں ، انھوں نے گذشتہ روز ایک ویڈیو پوسٹ کے ذریعے صورتحال سے آگاہی دیتے ہوئے کہا لاکھڑا قصبے تک سڑک بحال ہوچکی ہے چھوٹی گاڑیاں یہاں آسکتی ہیں۔ لاکھڑا کے گاؤں آڑا سیٹار،آڑا زوڈ،لنگا گوٹھ اور عبدالرحمان سیٹار گوٹھ متاثرہ ہیں۔ یہاں سیلاب کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کو بغیر کفن کے دفنایا گیا۔


جھل مگسی میں بھی درجنوں گاؤں سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہزار ایک سو ستائیں گھر سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ گئے ہیں جس سے سینکڑوں افراد چھت اور دیگر ضروریات زندگی سے محروم ہوئے ہیں۔


Lasbela02


’سرکاری اعداد و شمار‘


بلوچستان میں پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) موجود ہے جس کی ذمے فطرتی آفات میں متاثرین کی مدد کرنا ہے۔ پی ڈی ایم اے بلوچستان کی طرف سے میڈیا کو جو اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں ان کے مطابق حالیہ بارشوں سے بلوچستان میں 15 ہزار 337 مکانات کو نقصان پہنچا ہے جن میں 3 ہزار 872 مکانات مکمل تباہ ہوچکے ہیں جبکہ 11ہزار مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے، 23 ہزار 13مویشی ہلاک ہو چکے ہیں ،16 پل اور 670 کلو میٹر سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، 166 کی اموات ہوچکی ہے جبکہ 75 افراد زخمی ہوئے ہیں اور 1 لاکھ 89 ہزار 461 زرعی زمین متاثر ہوئی ہے۔


غیرسرکاری فلاحی ادارے سرکاری اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں۔


’مزید بارشوں کی پیش گوئی ‘


بلوچستان میں موسم کی حالات پر نظر رکھنے والے غیرسرکاری ادارے بلوچستان کے بعض علاقوں میں آج سے لے کر 7 سے 8 اگست تک مزید بارشوں کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ان کے مطابق 5 اگست سے 7 اگست کے دوران ژوب ، بارکان ، کوھلو ، لورالائی ، ڈیرہ بگٹی ، سوئی ، زیارت ، ھرنائی ، مچ ،بولان ، سیبی ، بھاگ،نصیر آباد ، ڈیرہ اللہ یار،صحبت پور، اوستہ محمد،جھل مگسی، کلات ، خضدار،وڈ، زھری، اوتھل ، بیلہ، دریجی اور آواران میں گرج و چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔