ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

تربت شہر میں بی ایل ایف کے پولیس پر حملے کے بعد خوف کی فضا قائم ، چوکیاں ہٹا دی گئیں

تربت شہر میں بی ایل ایف کے پولیس پر حملے کے بعد خوف کی فضا قائم ، چوکیاں ہٹا دی گئیں

NOV

18

تربت (نمائندہ خصوصی ) بی ایل ایف کے حملے کے بعد پولیس حکام نے اضافی چوکیاں ہٹا کر نفری واپس بلا لیے۔حملے کے بعد کیچ میں پاکستانی فورسز ، پولیس اور مقامی سہولت کاروں میں خوف کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ رواں ہفتے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کی ایک کارروائی میں شہر کے اندر پولیس چوکی پر قبضہ اور سرکاری اسلحہ کی ضبطگی کے بعد ایک غیر یقینی صورت حال جنم لے چکی ہے۔ بی ایل ایف کی مذکورہ کارروائی کے بعد پاکستانی حکام اس کارروائی کو بلوچ سرمچاروں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔اس کارروائی کے بعد یہ تاثر عام ہے کہ بلوچ سرمچار جہاں چاہیں اپنی حکمت عملی کے ذریعے مخالف قوت کے مفادات کے خلاف حملے کرکے انھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تربت جو کہ مکران کا انتظامی مرکز ہے اور یہاں بڑی تعداد میں پاکستانی فورسز موجود ہیں۔تربت میں پاکستان نیوی کا ایک اہم نیول ائربیس ( پی این ایس صدیق ) ، ایف سی ساؤتھ کا ہیڈ کوارٹر ، پولیس ، لیویز ، پاکستان آرمی اور متعدد انٹلی جنس اداروں کے دفاتر موجود ہیں۔ بی ایل ایف کی کامیاب کارروائی اور چوکی پر قبضہ سرکاری دفاتر، سْیاسی حلقوں اور عام لوگوں کے مجالس میں تاحال زیر بحث ہے جہاں ایک حلقہ پولیس پر حملے پر منفی تنقید کر رہا ہے وہاں بعض مبصرین اس عمل کو پولیس خصوصا سی ٹی ڈی کے حوالے سے ایک واضح تنبیہ اور خطرہ سمجھ رہے ہیں کیونکہ پولیس کا مذکورہ ادارہ بلوچ نوجوانوں کے اغواء ،تشدد ، قتل اور جعلی انکاؤنٹرز میں ملوث ہے۔ پولیس کے ایک سنیئر اہلکار کے مطابق کیچ میں ایک خاص حکمت عملی کے تحت سی ٹی ڈی کا پورا عملہ افسران سے لے کر اہلکاروں تک پشتون اور پنجاپیوں پر مشتمل ہے۔ ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی میں مقامی اہلکار بہت کم تعداد میں ہیں جن کی اکثریت نے حالیہ واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کے ساتھ کام نہ کرنے اور اپنے ٹرانسفرز کے لیے درخواستیں جمع کی ہیں۔ پولیس اہلکاروں اور انتظامی افسران کے علاوہ پاکستانی فوج کے مقامی سہولت کاروں میں بھی سراسیمگی اور ڈر کا ایک ماحول پیدا ہوگیا ہے وہ اب خود کو اور زیادہ غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔اس کا اظہار کچھ دنوں سے انٹلی جنس کی بارہا کوششوں کے باوجود پاکستانی فوج کے سابق میجر عادل راجہ کے خلاف احتجاج کے لیے انکار کی صورت نظر آیا،یہ پہلی دفعہ تھا جب مقامی سہولت کاروں نے انٹلی جنس اداروں کو انکار کی جرات کی جس کے باعث انتظامیہ کے ذریعے نصف درجن غیر مقامی مزدوروں کو ایک دن کی اجرت پر احتجاج کے لیے لایا گیا۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے حالیہ مہینے کی کارروائٛیاں اور قبولیت کے بیانات بھی عوامی سطح پر زیر بحث ہیں۔ بی ایل ایف اپنے بیانات اور کارروائیوں کے ذریعے بلوچ عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے میں کامیاب نظر آ رہی ہے ۔پاکستانی فوج ، پولیس اور مقامی سہولت کاروں کے خلاف ان کی دوٹوک کارروائیوں کی وجہ سے ان کے بارے میں منقسم رائے عامہ میں بھی بی ایل ایف کی حمایت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ جو بی ایل ایف کے مقامی قیادت کے لیے ایک طرف خوش آئند ہے تو دوسری طرف ذمہ داریوں اور چیلنجز بھی اضافہ ہوا ہے۔