ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو ,دلمراد-بلوچ

بی این ایم کی موجودگی میں ہمیں نئے اداروں کی ضرورت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔دلمراد بلوچ کا انٹرویو

بی این ایم کی موجودگی میں ہمیں نئے اداروں کی ضرورت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔دلمراد بلوچ کا انٹرویو

NOV

02
02 / 11 / 2022 انٹرویوز

دلمراد بلوچ بلوچستان کی تحریک آزادی کی سرخیل جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ان سے ریڈیو زرمبش اردو کی ٹیم نے ان کے سیاسی سفر ، بی این ایم کی پالیسیوں، بلوچ قومی سیاست کے مشکلات اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بات کی ، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔


سوال: اپنے سیاسی سفر کے بارے میں بتائیں؟


جواب: میں بنیادی طورپر ایک اسکول ٹیچر ہوں۔ دسمبر دو ہزار چھ کو میں نے بی این ایم جوائن کیا۔ نال زون کے کابینہ میں شامل رہا۔ دو ہزار دس کو جھاؤ میں منعقدہ مرکزی کونسل سیشن میں مرکزی کمیٹی کا ممبر منتخب ہوا۔ حاجی رزاق کی شہادت کے بعد مجھے انفارمیشن سیکریٹری کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ دو ہزار چودہ کے سیشن میں بطور مرکزی انفارمیشن سیکریٹری منتخب ہوا اور دو ہزار بائیس تک اسی عہدے پر رہا۔حالیہ سیشن میں کونسلروں نے مجھ پر اعتماد کرکے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر منتخب کیا۔ ایک بات یہاں ضرورمنشن کروں گا کہ میرے لیے عہدے کبھی اہم نہیں رہے ہیں، ہمیشہ ایک ممبر کی طرح کام کیا ہے اور جب تک توانائی باقی ہے ،بی این ایم کے ایک ممبر کی طرح کام کرتا رہوں گا۔



سوال: بی این ایم پر بہت مشکل وقت آئے، لیڈرشپ جبری لاپتہ کیے گئے، شہیدکیے گئے ، آٹھ سال کے طویل دورانیے کے بعد پارٹی سیشن کی طرف چلاگیا، سیشن کے بعد آپ لوگوں کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہے؟


جواب: کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے سیاست پر قدغن، لیڈرشپ کا قتل اور جبری گمشدگیاں واقعی میں مشکل مراحل ہوتے ہیں۔ بی این ایم نے ان حالات کا سامنا کیا ہے۔ ہماری پوری لیڈرشپ کو قتل کیا گیا۔ مرکزی رہنماء اب تک زندانوں میں قید ہیں۔غلام محمد، لالا منیر، ڈاکٹر منان جان، رسول بخش مینگل،حاجی رزاق،صمدتگرانی، رزاق گل، استاد علی جان جیسے لیڈرقتل کیے گئے۔ غفور جان اور ڈاکٹر دین محمد جیسے ساتھی خفیہ زندانوں میں قید ہیں۔ ہمارے سیاسی عمل پرمکمل قدغن ہے۔ جس پر بھی ذرا سا شک ہوتا ہے تو اس کا اٹھایا جانا اور قتل کرنا یقینی ہے۔ ان مشکل مراحل سے گزرکر یہاں پہنچنا پارٹی کی بہت بڑی کامیابی ہے۔اس کے علاوہ تحریک کے صفوں میں بھی اختلافات کے نام پر ایک بے سود لہر آئی جس سے نہ صرف تحریک بلکہ بلوچ سماج میں بھی ایک بے چینی کا ماحول پیدا ہوا لیکن ہماری لیڈرشپ کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کی وجہ سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور پارٹی کے وقار کو برقرار رکھا۔


جہاں تک حالیہ سیشن کی بات ہے، اسے بھی میں پارٹی کے لیے نہایت اہم کامیابی تصور کرتا ہوں کہ ان حالات میں بھی ہم سیشن کے انعقاد میں کامیاب ہوئے۔ بلوچ ، خطے کی سیاست پربحث ہوا، اہم فیصلے کیے گئے۔ وقت و حالات ایسے ہیں کہ تمام فیصلے منظر عام پر نہیں لاسکتے لیکن اتنا بتا سکتا ہوں کہ بلوچستان میں کام کرنے کے طریقہ کارمیں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ ڈائسپورہ کو مزید منظم اورموبلائز کرنے کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا۔


سوال:بلوچستان کے مشکل حالات میں کام کرنا آسان نہیں ، اس وقت گراونڈ کس طرح کام کررہا ہے یا کس طرح کام کرے گا؟


جواب: بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست پرمکمل قدغن ہے ،خواہ وہ پارٹی سیاست ہویا طلباءسیاست، پاکستان نے ہمارے لیے کام کرنے کے تمام ذرائع مسدود کیے ہیں، لیکن ان حالات میں کام کرنا ہی ایک آزادی پسند و انقلابی پارٹی کے لیے اصل امتحان ہے۔ ہم نے بلوچستان میں کام کرنے کے طریقہ کار میں وقت و حالات کے ضرورتوں کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں۔اس غرض سے ہم نے پارٹی آئین میں ترامیم کیں، وقت و حالات کے تقاضوں کے مطابق کام کے لیے آئین میں گنجائش پیدا کیا گیا۔ بلوچستان میں اب نئے طریقہ کارکے مطابق کارکن محفوظ طریقے سے کام کررہے ہیں اور اس کے نتائج حوصلہ افزاء ہیں۔


سوال: آج کل بلوچ کے نام سے نئی پارٹیاں اور تنظیم بن رہے ہیں ، یہ نئے ادارے بلوچ قوم کو مزیدتقسیم کی جانب لے جائیں گے یا قومی تحریک کے لیے سود مند ثابت ہوں گے؟


جواب: یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ جہاں خلاء پیدا ہوگا وہاں اس خلاء کو پر کرنے لے لیے مختلف قوتیں سرگرم ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست پر مکمل پابندی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پارلیمانی پارٹیاں بھی قوم پرستی کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن وہ قوم پرستی کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ جہاں تک نئے اداروں کا تعلق ہے، اس خلا کو بھرنے کے لیے دو طرح کی قوتیں میدان میں نظرآتی ہیں ایک وہ جنھیں پاکستانی مقتدرہ نے لانچ کیا ہے جیسا کہ باپ وغیرہ ہیں دوسرے وہ جنھیں بلوچ قوتوں نے بنایا ہے یا وہ ایک قوم پرستانہ نعرے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تنظیمیں واقعی بلوچ سیاسی خلا کو پر سکتی ہیں یا تاریخ کے سفر میں محض دھول بن جاتے ہیں ۔ دوسری طرف حالات گوکہ مشکل ہی سہی لیکن بی این ایم جیسے قوم پرست پارٹی کی موجود گی میں ہمیں نئے اداروں کی ضرورت محسوس نہیں کرنی چاہیے، آئیں بی این میں ایم شامل ہوجائیں ،پارٹی کو مضبوط کریں اور بلوچ کاز کو آگے بڑھائیں۔


سوال: ایران کے بارے بی این ایم پربعض سوال اٹھائے جاتے ہیں ، ابھی ایران میں ایک ابھارنظر آتا ہے ، مغربی بلوچستان میں ایران کے خلاف بلوچ بڑی تعداد میں نکل آیا ہے ،سو سے زیادہ بلوچ مارے گئے ہیں، بی این ایم اس ابھار کوکس طرح دیکھتی ہے اورمغربی بلوچستان کے بارے میں پارٹی کی پالیسی کیا ہے؟


جواب : بی این ایم نہ صرف مغربی بلوچستان کو بلوچ قومی وحدت کا حصہ سمجھتی ہے بلکہ افغانستان کے زیرانتظام بلوچستان کو بلوچ قومی وحدت کا حصہ سمجھتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ مغربی بلوچستان کے مسئلے پر کافی لفاظی ہوتی ہے۔ کیا واقعی میں آپ کے پاس وہ قوت موجود ہے جو آپ بیک وقت دو محاذ کھولیں؟ حقیقت یہ ہے کہ دو مختلف مملکتی بندوبست نے بلوچ قومی نفیسات، قومی نظریہ اور جدوجہد پر کافی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مغربی بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست کی وہ صورت حال نہیں ہے جو مشرقی بلوچستان میں ہے۔ اب آپ مشرقی بلوچستان کی طرزسیاست کو مغربی بلوچستان پر مسلط بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ مشرقی بلوچستان میں بیٹھ کرمغربی بلوچستان کے لیے تحریک چلائیں۔ البتہ مشرقی بلوچستان میں ہماری تحریک جتنی مضبوط ہوگی اس کے اثرات دیگر بلوچ خطوں پر پڑسکتے ہیں۔ لہٰذا اہم یہ ہے کہ ہمیں اپنی توانائیاں وہاں صرف کرنی چاہئیں جہاں آپ کی قوت و طاقت موجود ہے اور آپ کا گراونڈ ہے۔ اور اس وقت ہماری جدوجہد ہم سے یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ ہم اپنی دشمنوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے کم کریں۔


سوال:۔بی این ایم کا پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کی باتیں ہورہی ہیں، بلوچ قومی تحریک میں اتحاد زیادہ دیر قائم نہیں رہے، بی این ایف بڑی قوت تھی جس میں بلوچ قومی تحریک کے تمام اسٹیک ہولڈرز شامل تھے لیکن تین چارسال سے زیادہ نہیں چل سکا، کیا بی این ایم کا دیگر پارٹیوں کے ساتھ اتحادکے لیے بات چیت چل رہی ہے؟


جواب: یہ بات صحیح ہے کہ ہمارے یہاں اتحاد زیادہ نہیں چل سکے ہیں۔ صرف بی این ایف کچھ سال چل سکا۔ بی این ایف کے علاوہ کوئی قابل ذکراتحاد ہمیں نظرنہیں آتا۔ آزادی پسند طاقتوں کے درمیان اتحاد کوبلوچ قوم کے لیے ہمارے سابق چیئرمین خلیل بلوچ اکیس صدی کاعظیم تحفہ قرار دیاتھا، ڈاکٹرمنان بلوچ گوکہ تنظیمی امورکے لیے دورے پر تھے لیکن ان کے دورے کا اہم عنصراتحاد کے لیے راہیں تلاش کرنا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی پسند پارٹی اور تنظیموں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کی تلاش میں بی این ایم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منان جان شہید ہوئے۔ ہم سے زیادہ اتحاد کی اہمیت سے شاید ہی کوئی واقف ہو۔ آج آپ کو اتحاد کے حوالے سے جو ہم آہنگی نظر آتی ہے، اس میں بڑا کریڈٹ ڈاکٹر منان کو جاتا ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ آزادی پسندسیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد بلکہ اشتراک عمل ہو لیکن بدقسمتی سےکچھ تلخ تجربات ہمارے ماضی کاحصہ ہیں جن سے ہم پوری طرح نہیں ابھر پائے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اتحاد ہو اور ممکنہ اتحاد ماضی کے اتحادوں سے مختلف ہو اور ماضی کے تلخ تجربات بھی اس پر اثر انداز نہ ہوں۔



سوال: خطہ اور بین الاقوامی سطح پر تبدیلیاں آرہی ہیں۔ کیا بی این ایم کی پالیسیاں ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہیں یا بی این ایم ان چیلنجزکا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے؟


جواب: ایک طرف پاکستانی بیانیہ ہے جو بلوچ قومی تحریک کو خطے کی صورت حال سے جوڑتے ہیں کہ یہ ابھار گیارہ ستمبر اور افغانستان میں امریکہ کی موجودگی سے وجود میں آیا، پاکستانی میڈیا، سیاسی پارٹیاں اور دوسرے ادارے اس کا بہت زیادہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی انخلا کے بعد بلوچ قومی تحریک کو ماند پڑنا چاہیے تھا لیکن عام مشاہدہ کہتا ہے کہ امریکی انخلاکے بعد تحریک میں تیزی آئی ہے۔ بلوچ قومی تحریک ایک انڈیجینئس تحریک ہے خطے اور بین الاقوامی تبدیلیاں ایک حد تک اثرانداز ہوسکتی ہیں لیکن مکمل طور پر نہیں کیونکہ یہ تحریک بلوچ قوت بازو پر انحصار کرتی ہے۔ بلوچ قوم اسے سات دہائیوں سے جاری رکھا ہوئی ہے۔ ان سات دہائیوں میں دنیا میں کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ پاکستان نے جارحیت میں کبھی بھی کمی نہیں کی ہے مگر بلوچ قوم ڈٹی رہی ہے اور آج بھی مقابلہ کر رہی ہے۔ اس میں کئی شخصیات اور جماعتوں کا کردار رہا ہے۔ بی این ایم ان میں سے ایک ہے۔


بین الاقوامی سطح پرچیلنجز ضرور ہیں، ہم بطور پارٹی ان کامقابلہ کرسکتے ہیں۔ گوکہ بین الاقوامی سطح پہ ہم کوئی بڑے اسٹیک ہولڈر نہیں لیکن ہماری سیاسی تاریخ ،ہماری تزویراتی جغرافیائی اہمیت اورمضبوط تحریک کو ملا کر دیکھا جائے تو عالمی طاقتوں کے لیے بلوچ قوم کونظرانداز کرنا مشکل ہے۔اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کے مستقبل کے لیے منصوبہ بندیوں کا بلوچستان اہم جزو ہوگا۔ عالمی طاقتیں ایک دوسرے نبرد آزما ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو کئی لحاظ سے کمزور کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ہم بھی اسی دنیا اور ایک ہی زمین پر بستے ہیں۔ ہم دنیا سے الگ نہیں ہیں تو ہماری ضروریات، دلچسپی اور مفادات بھی الگ نہیں ہیں۔ آج ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں کہ ہم دنیا سے اپنے مفادات ہم آہنگ کرکے دوست بنا سکتے ہیں اور چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔