ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو ,-تحریک-طالبان-پاکستان-

ہماری کارروائیاں انتقامی اور دفاعی ہیں جنگ بندی برقرار ہے، ٹی ٹی پی کے ترجمان کی ریڈیو زرمبش سے خصوصی گفتگو

ہماری کارروائیاں انتقامی اور دفاعی ہیں جنگ بندی  برقرار  ہے، ٹی ٹی پی کے ترجمان کی ریڈیو زرمبش سے خصوصی گفتگو

SEP

04
04 / 09 / 2022 انٹرویوز

ادارتی نوٹ: تحریک طالبان پاکستان ایک مذہبی مسلح تنظیم ہے جو اپنے نظریات کی بنیاد پر پاکستانی ریاست کے ساتھ لڑ رہی ہے۔خطے میں ’ پاکستان‘ طالبان کی جائے پیدائش ہے۔ وہاں انھیں نہ صرف ریاست پاکستان کی سرپرستی حاصل تھی بلکہ عالمی طاقتوں نے بھی سویت یونین کو روکنے کے لیے طالبان اور القاعدہ کی بھرپور مدد کی۔اب یہ راز نہیں رہا جنرل پرویز مشرف سمیت دیگر ممالک کے اعلی حکام میڈیا پر اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ طالبان روس مخالف امریکی پروجیکٹ کا حصہ تھے۔


لیکن وقت اور حالات میں تبدیلی کے بعد طالبان کی قیادت اور تنظیم بھی نشیب و فراز کا شکار رہے۔افغانستان میں سویت یونین کی حکومت کے خاتمے کے لیے جن قوتوں نے طالبان کی مدد کی تھی۔ان کے اندازے اس وقت غلط ثابت ہوئے جب طالبان نے اپنے نظریات کے مطابق چلنے کا فیصلہ کیا۔امریکا پر 11 ستمبر کے حملے کے بعد طالبان اور امریکا آمنے سامنے آگئے۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور افغان طالبان امریکا کے ساتھ ایک طویل گوریلا جنگ میں الجھ گئے جس کا اختتام گذشتہ سال اگست کے مہینے میں طالبان اور امریکا کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے ہوا اور افغانستان میں دوبارہ طالبان نے اپنی ’امارت اسلامی‘ قائم کی، یہ بظاہر طالبان کی جیت تھی۔


دوسری طرف طالبان کے جنم بھومی پاکستان میں طالبان کے اراکین نے یہ بھانپ لیا کہ وہ اپنے نظریات کے مطابق پاکستان میں بھی اپنی حکومت اور اقتدار قائم کرنے کے لیے وہی کوشش کرسکتے ہیں جو وہ افغانستان میں کر رہے ہیں۔ طالبان کے خلاف پاکستان نے امریکا کے کہنے پر جو اقدامات کیے ان سے بھی طالبان کے صفوں میں یہ خیال مستحکم ہوا کہ ’پاکستانی ریاست‘ جہاد کو محض ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہی تھی اور اب وہ طالبان کو ناکارہ سمجھ کر ان کا خاتمہ چاہتی ہے۔جیسا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان پاکستان کے اثاثے ہیں، سیکورٹی ایجنسیوں کی زبان میں ’اثاثہ‘ پراکسی اور کرایے پر کام کرنے والے افراد کو کہتے ہیں جن کو وہ غیراعلانیہ اور خفیہ طور پر اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتے ہیں، اب بظاہر طالبان پاکستانی فوج کے کنٹرول سے باہر آگئے ہیں۔


تحریک طالبان پاکستان ، جس کی افغان طالبان سے نظریاتی وابستگی مضبوط ہے۔ اب ریاست پاکستان کے لیے ایک چیلنج کی صورت موجود ہے۔ہم نے ایک سال قبل ایسے وقت میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کا انٹرویو کیا تھا جب افغانستان میں افغان طالبان برسراقتدار آچکے تھے۔یہ افواء تھی کہ اب بہت جلد تحریک طالبان کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے اور اب ایک سال بعد ہم نے دوبارہ تحریک طالبان کے ترجمان سے موجودہ حالات پر سوالنامے کی شکل میں گفتگو کی ہے جس کا انھوں نے سیرحاصل جواب دیا ہے۔


ادارے کا مقصد اپنے قارئین کو ان خیالات سے آگاہ کرنا ہے جن کی پاکستانی میڈیا میں اشاعت پر پابندی ہے۔ہم واضح کرتے ہیں کہ ایسا طالبان کی سیاست و نظریات کی تشہیر کے لیے نہیں کیا جا رہا بلکہ ہم اپنے قارئین کو تصویر کا وہ رخ دکھانا چاہتے ہیں جسے جان بوجھ کر تاریکی میں رکھا گیا ہے۔ہمارے سوالات کے جوابات تحریری صورت میں دیے گئے، جنھیں ادارہ من و عن شائع کر رہا ہے۔


ادارہ زْرمبش: آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ایک مرتبہ پھر ہم سے متعلقہ معاملات پر گفتگو کے لیے رضامندی ظاہر کی۔سوالات حالات حاضرہ سے متعلق ہیں تاکہ ہم تحریک طالبان پاکستان سے متعلق عمومی رائے پر آپ کے قیادت کی رائے جان سکیں۔


تحریک طالبان پاکستان اور ریاست یا صحیح معنوں میں پاکستانی فوج کے درمیان مذاکرات ہوئے ، جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور وہاں افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے سرکردہ رہنماء ایک ہدف بند حملے میں قتل کیے گئے ، مذاکرات کا مستقبل کیا ہے یا جنگ بندی اب بھی برقرار ہے؟


محمد خراسانی: مذاکرات جہادی سیاست کا حصہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت اور خلفاء راشدین اور دیگر خلفاء کی اسلامی سیرت ہمیں اس بات کی وضاحت دیتی ہے کہ وہ دشمن کے خلاف جنگ بھی کرتے اور مذاکرات کا دروازہ بھی کھلا رکھتے،یعنی اگر دشمن مذاکرات کرتا تو اہداف کے حصول کے لیے اسی راستے پر اپنا سفر جاری رکھتے۔ہم بھی بامعنی مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کرتے لہذا ہماری مبارک مزاحمت کا مقصد اپنے دینی اور شرعی مقاصد کا حصول ہے۔جنگ اور مذاکرات دونوں ان اہداف کے حصول کے لیے ہیں فی الحال جنگ بندی جاری ہے اور ہم اس پر مکمل عمل پیرا ہیں۔ہمارے مجاہدین صرف دفاع اور انتقام کی صورت میں کارروائی کرتے ہیں مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے یا کامیابی کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اگر طریفین حقائق کا ادراک اور اخلاص کا مظاہرہ کریں۔تو مذاکرات ایک بہتر مستقبل کی طرف جا سکتے ہیں اور اگر سابقہ مذاکرات کی طرح حقائق سے چشم پوشی اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تو پھر مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا البتہ ایک بات میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگ گوریلا ہے اور گوریلا جنگ کا دورانیہ عشروں پر محیط ہوتا ہے اور اس کے مقابلے پر دشمن چاہے جتنا بھی قوی ہو وہ عدم استحکام کا شکار ہو کر ایک دن سقوط کا شکار ہو جاتا ہے۔


تحریک طالبان پاکستان اس مبارک جنگ کے لیے ہزاروں مخلص جوانوں کی افرادی قوت رکھتی ہے اور نئے جوانوں کی بھرتی کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے۔ہم اس جنگ کے نتائج کے لیے بالکل بھی جلدباز نہیں ہیں۔پچھلے پندرہ سالوں سے الحمدللہ ہم نے سرحد کے دونوں جانب دشمن پر کامیاب حملے کیے ہیں اور اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو ہم الحمدللہ عشروں تک اس جنگ کو کامیابی سے جاری رکھ سکتے ہیں۔


ادارہ زْرمبش: تحریک طالبان پاکستان ریڈیو زرمبش کے ساتھ اپنے گذشتہ انٹرویو اور اپنے بیانات میں بارہا اس بات کا اظہار کرچکی ہے کہ ٹی ٹی پی کا افغان طالبان کے ساتھ مضبوط نظریاتی تعلقات ہیں لیکن حالیہ دنوں میں یہ دعوے سامنے آئے ہیں کہ وہاں افغانستان میں ’حکمران طالبان‘ پاکستانی طالبان کی اپنی سرزمین پر موجودگی سے خوش نہیں ہیں ، پاکستان سے صلح کرنے کے لیے دباؤ دے رہے ہیں یہاں تک کہ افغان میڈیا کے مطابق آپس میں خونریز جھڑپ بھی ہوئی ہے، کیا اب آپ کے افغان طالبان سے راہیں جدا ہوگئی ہیں ؟


محمد خراسانی: تحریک طالبان پاکستان گوریلا جنگ اپنی جہادی سرزمین سے جاری رکھی ہوئی ہے اور ہمیں اس جنگ کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور افغانی اور پاکستانی مجاہدین کے درمیان کوئی ٹکر نہیں اور نہ ہی کسی تصادم کا کوئی امکان موجود ہے البتہ افغان طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مبارک نظام کی تقویت اور استحکام کے لیے کام کریں اور پاکستانی مجاہدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مقدس جہاد کی کامیابی کے لیے کام کریں۔


ادارہ زْرمبش: پاکستان سے مذاکرات کے بنیادی نکات کیا ہیں ؟


محمد خراسانی: فی الحال ہمارا بنیادی ہدف قبائل کی آزاد حیثیت کو بحال کرنا ہے۔


ادارہ زْرمبش: کیا افغان طالبان صرف پشتون سرزمین کا دعویدار ہے یا پورے پاکستان میں افغان طرز کا طالبانی انقلاب یا امارت اسلامی قائم کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر پورے پاکستان میں تحریک اپنے نظریات کے مطابق انقلاب چاہتی ہے تو منصوبہ ، منشور اور امکانات کو کیسے دیکھتی ہے؟


محمد خراسانی: تحریک طالبان پاکستان، پاکستان کی سطح پر ایک جہادی تنظیم ہے لیکن فی الحال مذاکرات میں ہمارا بنیادی ہدف قبائل کی آزاد حیثیت کو بحال کرنا ہے۔


ادارہ زْرمبش: پاکستانی بندوبست میں پشتون سرزمین جو کہ طالبان کا مرکز ہے ، افرادی قوت وہاں سے ملی ہے اب وہاں بھی عوامی سطح پر طالبان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، مخالفت کی جا رہی ہے،کیا آپ نہیں سمجھتے کہ تحریک طالبان پاکستان کی اب عوامی حمایت کم ہوگئی ہے؟


محمد خراسانی: نہیں یہ ایک مخصوص طبقہ ہے جو شروع ہی سے مقامی اسٹبلشمنٹ اور بین الاقوامی سیکولر لابی کے اشاروں اور پیسوں کی ایماء پر مجاہدین اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتا ہے اور ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ طبقہ کبھی بھی اس قوم کا ترجمان نہیں ہو سکتا یہ فقط مخصوص خاندانوں اور جہتوں کی نمائندگی کرتا ہے اور ان کی غلامی کا تسلسل سویت یونین کی خونی یلغار کے وقت سے جاری ہے اور یہ ہمیشہ سے اس خطے میں لادین سامراجی قوتوں کے مقاصد کے لیے کام کرتے آ رہے ہیں۔ان کی بنیادیں جیسا کے افغانستان میں مبارک جہاد کے نتیجے میں ختم ہو چکی ہیں اس طرح پختونخوا کی مبارک اسلام پرست سرزمین پر بھی ان کی بنیادیں مبارک جہاد کی بدولت ختم ہو جائیں گی۔ان کی فعالیت اور عزائم کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔


ادارہ زْرمبش: تحریک پر الزامات ہیں کہ اس کے اراکین بھتہ اور اغواء برائے تاوان میں ملوث ہیں ، سچائی کیا ہے؟


محمد خراسانی: یہ فقط دشمن کا پروپیگنڈہ ہے تحریک ایک دینی اور شرعی جماعت ہے اور شریعت کے اصول و ہدایات کی روشنی میں اپنی داخلی اور خارجی سیاست کو آگے بڑھاتی ہے ہر وہ کردار اور عمل جس کی اجازت شریعت نہ دیتی ہو وہ تحریک کی پالیسی اور جہادی سیاست کا حصہ نہیں بن سکتا۔یہ کام مجاہدین کے نام پر مجاہدین کے دشمن کرتے ہیں اور ہم نے اس کی روک تھام کے لیے مستقل ادارہ اور کمیٹی بنائے ہوئے ہیں جن کے رابطہ نمبر ہم بار بار عمر میڈیا سے نشر کرتے رہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی تحریک کے نام پر کسی شخص کو دھمکی دے رہا ہے تو وہ ہم سے رابطہ کریں تا کہ ھم اس کی تحقیق اور مدد کر سکیں اور میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ اگر کسی کو دھمکی دی جا رہی ہے تو وہ ھم سے اس نمبر پر رابطہ کریں ھم اس متاثرہ شخص کی پوری مدد کریں گے۔


ادارہ زْرمبش: تحریک طالبان کے پاکستان کے داعش خراسان کا خطرہ کتنا بڑا ہے، جیسا کہ افغانستان میں امارت اسلامی میں داعش اب بھی پرتشدد کارروائیاں کر رہی ہیں کیا تحریک طالبان پاکستان اپنی اس متوازی تحریک کو روک پائے گی؟


محمد خراسانی: فی الحال پاکستان میں ہمیں ایسی کوئی مشکل نہیں ہے اور پاکستان میں ہماری پالیسی فقط پاکستانی سیکورٹی ادارے اور ان کے معاونین کو ہدف بنانا ہے۔