ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو ,ڈاکٹر-اللہ-نذر-بلوچ

ساؤتھ ایشیاء کا چی گویرا اللہ نذر بلوچ |ہندوستانی صحافی مارک کنرا کو دیا گیا انٹریو

ساؤتھ ایشیاء کا  چی گویرا   اللہ نذر بلوچ  |ہندوستانی صحافی مارک کنرا کو دیا گیا انٹریو

AUG

14
14 / 08 / 2022 انٹرویوز

ہندوستانی کی آزادی اور پاکستان کے قیام سے پہلے 11 اگست 1947 کو بلوچستان نے آزادی حاصل کیا۔ لیکن یہ آزادی برقرار نہ رہ سکی اور پاکستان نے 27 مارچ 1948ء کو بلوچستان پر قبضہ کرلیا۔تب سے بلوچستان اپنی آزادی کے لیے لڑ رہا ہے۔دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ڈاکٹراللہ نذر بلوچ پاکستانی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہے۔


اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے مارک کنرا سے اپنے سیاسی سفر ، سیاست،پاکستانی فوج کے اذیت گاؤں میں تشدد، بی ایل ایف پر ایران سے تعلق کا الزام،بیرک گولڈ اور ہندوستان سے بلوچوں کے توقعات اور بہت سے دیگر معاملات پر گفتگو کی۔


’مارک کنرا‘


نوٹ : یہ انٹرویو انڈین نریٹیو نے شائع کیا ہے جسے ’ریڈیو زرمبش اردو‘ اپنے قارئین کے لیے انڈین نریٹیو اور مارک کنرا کے شکریہ کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔


مارک کنرا: آپ اپنے بارے میں بتائیں، اور یہ بتائیے آپ کے سیاسی سفر کا آغاز کیسے ہوا؟


ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: میں ڈسٹرکٹ آواران کی تحصیل مشکے کے گاؤں مہیی میں ایک عام بلوچ کے گھر میں پیدا ہوا۔ میرا خاندانی پسِ منظرایک عام بلوچ کی ہے، جو نیم خانہ بدوش ہے اور بارانی زمینوں پر ان کا گزربسر ہوتا ہے۔


جہاں تک میرے سیاسی سفر کا تعلق ہے، وہ 1985ء میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(BSO)کے پلیٹ فارم سے شروع ہوا ۔


مارک کنرا: آپ کی زندگی کا وہ کون سا اہم موڑ تھا جس نے آپ کو اسٹیتواسکوف اور اپنے میڈیکل کے شعبہ کو چھوڑ کر بندوق اٹھانے پر مجبور کر دیا؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: یہ فیصلہ یا جو آپ کہہ رہے ہو کہ ٹرننگ پوائنٹ یہ میرے لیے نیا نہیں ہے اور نہ ہی نیا تھا ، کیونکہ قومی محکومی،یا ذولفقارعلی بھٹو کے دور کی فوجی سفاکیت اور جبر اور ایوب خان کی ننگی سفاکیت کی داستانیں اپنے بڑوں سے سنتاتھا۔ جو ہماری حالت زار تھی،اس ضمن میں بی ایس او کاسلوگن، بی ایس کی تربیت نے بہت اہم کردار ادا کیا۔جہاں تک میڈیکل پریکٹس چھوڑنے کی بات ہے یہ میرے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ میں اپنی قوم ، وطن اور سرزمین کو اچھی طرح جان سکوں۔جومیں پانچ سال کی میڈیکل کالج میں تعلیم کے دوران اسی موقع کا منتظر تھا۔ جوں ہی مجھے موقع میسر آیا تو بلوچستان لبریشن فرنٹ(BLF)کا پلیٹ فارم بھی میسر آگیاجس نے ہماری حقیقی سیاسی تربیت کی ، آپ کہہ سکتے ہیں کہ منبع و مرکز آزادی تھی۔تو اسی لیے میں نے اسٹیتواسکوف کو چھوڑا نہیں بلکہ میں نے اپنے شعبے یا پروفیشن کو بھی کسی حد تک کہہ سکتے ہیں چھوڑا اور آزادی کی جنگ میں حصہ لیا ۔ جو ہمارا قومی تشخص ، غربت یہ چیزیں جو پاکستان کی سفاکیت، ریاستی مظالم تھے جو ہم اپنے بزرگوں سے سنتے تھے ، اپنے والدین سے سنتے تھے۔یہ بڑی ٹرننگ پوائنٹ تھی جس نے بعد میں ہمیں آزادی کی جدوجہد میں بندوق اٹھانے پہ مجبور کیا۔


مارک کنرا: آپ بی ایس او کے ممبر تھے، کن وجوہات کی بنا پر آپ کو اپنی علیحدہ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد بنانی پڑی؟


ڈاکٹراللہ نذر بلوچ : جب ہم بی ایس او کے ممبر بنے اس وقت ضیاالحق کی مارشل لاء تھی۔جب اگست 1988ء میں ضیا الحق کا جہاز کریش ہوا تو ریاست نے انتخابات کا اعلان کیا۔ جس بی ایس او سے میرا تعلق تھا۔اس کا رشتہ بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ(BNYM)سے تھا ان لوگوں نے پاکستانی انتخابات میں حصہ لیا صرف اس وعدے پر کہ ہم اس پلیٹ فارم کو آزادی کے لیے استعمال کریں گے۔لیکن بعد میں ان لوگوں کی وجہ سے بلوچ قومی سیاست میں پارلیمنٹ یا پارلیمانی سیاست کا زہر اتنی سرایت کرگیا جسے روکنا ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج تھا ۔


میں بی ایس او میں کئی بار سینیئر عہدوں پہ ذمہ داریاں نبھا چکا تھا اور جس وقت بی ایس او آزاد بنایا تو اس وقت میں بی ایس او کا سینیئروائس چیئرمین تھا۔تو ہم نے سمجھا کہ یہ واحد پلیٹ فارم ہوگا جس سے آنے والے دنوں میں قومی رہنماء اور رہبر جنم لیتے رہیں گے اور یہ جو پارلیمانی زہر ہے اسی پلیٹ فارم سے اس کے اثرات کو زائل کرسکتے ہیں لہذا کسی حد تک ہم اس میں کامیاب بھی ہوگئے اور بلوچ قومی جنگ آزادی کی اب جو بیشتر قیادت ہے وہ بی ایس او آزادکی ہی پیداوار ہے۔


مارک کنرا :ہمیں بی ایل ایف کی تفصیلات بتائیں، کیا اس بی ایل ایف کا جمعہ خان کے 1960کے بی ایل ایف سے کوئی تعلق ہے، یا مکمل طور پر ایک الگ تنظیم ہے؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: ہماری تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کا کسی قسم کا تعلق واجہ جمعہ خان جو ایک منجھے ہوئے سیاست دان تھے ان کی بی ایل ایف سے نہیں ہے۔ ہاں یہ نام تو ضرور ہم نے اپنایا البتہ ہماری تنظیم، نظم اور اپنی مخصوص تنظیمی ساخت کے حوالے سے اس بی ایل ایف سے بہت مختلف ہے جس کی قیادت واجہ جمعہ خان کررہے تھے۔لہذا ہماری تنظیم ایک مختلف آرگنائزیشن ہے۔


مارک کنرا: آپ متعدد بار پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو ئے اور طویل عرصے مقید رہے، آپ پر سخت جسمانی اورذہنی تشدد کیا گیا۔ یہ تشدد کیسا تھا ، اور آ پ نے کیسے اس صورتحال میں ذہنی طور پر خود کو سنبھالے رکھا ؟


ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: بسا اوقات چھوٹے موٹے سیاسی احتجاج کرتے ہوئے ہمیں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی ، دنوں کے لیے کبھی گھنٹوں کے لیے قید ہوگئے لیکن جو سخت ترین جسمانی اور ذہنی تشدد تھا 2005ء میں جب ہم گرفتار ہوگئے۔جس کے بعد ہمیں ٹارچر سیل میں رکھا گیا ، اس کے اثرات ابھی تک ہیں۔نہ صرف میرے بلکہ میرے قوم کے جتنے لوگ ہیں وہ سب اس تشدد سے متاثر ہیں جوان بدنام زمانہ ٹارچرسیلوں میں مقید ہوئے ہیں۔ میرے دوست جو آج جنگ آزادی کی قیادت کررہے ہیں کم و بیش وہ ان اذیت خانوں میں رہ کر آئے ہیں۔لیکن آپ کہتے ہیں کہ ان انتہائی تشویش ناک صورتحال میں آپ نے خود کو کیسے سنبھالا اور ذہنی اور جسمانی طور پر خود کو کیسے مضبوط کیا، میرے خیال میں مجھ سمیت جتنے دوست تھے یا جتنے دوست اب قیادت کررہے ہیں میں ان میں استاد واحدکمبر جو ستر کی دہائی سے تحریک سے وابستہ ہیں، یا میرعبدالنبی بنگلزھی ہیں یا ڈاکٹرنسیم بلوچ جو بلوچ نیشنل موومنٹ کے موجودہ چیئرمین ہیں سمیت کئی دوست جو ٹارچرسیل سے ہوکر گزرے ہیں اسی طرح کمال بلوچ جو بی ایس او کے وائس چیئرمین رہ چکے ہیں اور حالیہ دنوں بلوچ نیشنل موومنٹ کے سینیئر جوائنٹ سیکرٹری جنرل ہیں وہ دو مرتبہ اس اذیت سے دوچار ہوئے ہیں۔


جو بھی چاہے وہ آزادی کے لیے پرامن جدوجہد کررہے ہیں یا مسلح جدوجہدلگ بھگ وہ سب اس عمل سے گزرچکے ہیں۔ جیسے اختر ندیم جو میرے ساتھ تھے، یا میرےبھائی گوہرنواز جو بعد میں شہید ہوگئے، سارے جو اس عمل سے گزرچکے ہیں اس دوران جس چیز نے ہمیں توانا کیا وہ ہمارا مقصد ہماری آزادی اور آزادی کی جدوجہد ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ جیل میں ایک ہمارے ایک سینیئر پروفیسر آئے جو میرےاستاد رہ چکے تھے۔انھوں نے کہا کہ بیٹا ان حالات سے جو گزر چکے ہو یا گزر رہے ہو آپ کیسے زندہ ہو، میں فقط اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ کوئی عظیم مقصد ہے جس نے تمہیں زندہ رکھا ہے اور یہ بات میں یہاں بھی دہرانا چاہتا ہوں کہ واقعی ہم اپنے مقصد ہی کی وجہ سے ہی مضبوط ہیں اور یہ جنگ جاری ہے اور جتنے لوگ اب بھی ٹارچر سیلز میں ہیں ، جن میں سے کچھ شہید ہوگئے ہیں اور کچھ ابھی تک ان اذیت خانوں میں ہیں اورمجھے یقین ہے جو زندہ ہیں یہ ان کی ول پاور ہے جوجدوجہد کررہے ہیں وہ مقصد کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہیں جو انھیں توانائی بخشتی ہے۔ صرف یہی جو ول پاور ہے یا ذہنی قوت ہے یہی ہمیں اور ہماری جدوجہد کو توانائی بخشتی ہے اور بخش رہی ہے۔


مارک کنرا : 2018 کو براس کی تشکیل ہوئی جو کہ بلوچ مسلح تنظیموں کا ایک اتحاد ہے،براس کی تشکیل میں آپ کے کیا خیالات تھے، جبکہ بی ایل ایف پہلے ہی انتہائی متحرک طور پر کام کررہی تھی؟


ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: براس کا جہاں تک تعلق ہے تو ہمیں ایک اتحاد کی ضرورت تھی ، ہم بہت پہلے سے اس اتحاد کے لیے کوشش کررہے تھے ۔ لیکن بعض اوقات کچھ ایسے مراحل آگئے کہ دوست اکھٹے نہ ہوسکیں لیکن بی ایل ایف جیسا کہ آپ نے کہاکہ ابھی تک ایک موثر اور متحرک آرگنائزیشن ہے ۔ میں سمجھتا ہوں جو بھی آزادی کی جنگ لڑیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔اگر گروپس ہیں تو اس وقت بی ایل اے ہے ، بی آرجی ہےیا بی این اے ہے وہ حصہ ہیں، اس جہد کا۔میرے خیال میں ، اور بھی گروپس ہیں تنظیمیں ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اکٹھا کیا جائے اور ہمارے ارادے یہ ہیں یہ جو ایک الائنس ہے ہم اس کو ایک پارٹی یا مضبوط جماعت کی طرف لے جائیں تاکہ بلوچ قومی جنگ آزادی کی جب ایک لیڈنگ پارٹی ہوگی تو تحریک زیادہ مضبوط اور توانا ہوگی۔ہم کہتے ہیں کہ براس کی جو موجودگی ہے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ جائیں اور میرا ایمان ہے ،یہ میری خواہش ہے، دوستوں کی خواہش ہے کہ ایک دن ہم ایک انتہائی مضبوط پارٹی بنائیں۔


مارک کنرا:کیا آپ کو لگتا ہے کہ عام بلوچ کی لیڈر شپ، جیسے کہ آپ کی لیڈرشپ نے سرداری سسٹم کی جگہ لے لی ہے؟


ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: سرداری نظام کا جو تعلق ہے وہ بلوچ کی قومی آزادی کی جدوجہد کو آگے لے جانے میں ابتداء سے ایک ناکام نظام تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں اتنی کمزوریاں ہیں کہ وہ بلوچ قبائلیت جو نیم قبائلی نظام ہے وہ اب بلوچ جنگ آزادی کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے ۔اس لیے بلوچ قوم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایک ایسی جنگ لڑیں جو پوری قوم کی رہنمائی کرے۔میں تو خود کہہ نہیں سکتا کہ میں کیا ہوں لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے کئی دوست ہیں جو آزادی کی جنگ میں ایک موثر کردار ادا کررہے ہیں جن کا کسی قبائلی سردار کے خاندان سے تعلق نہیں ہے بلکہ وہ عام بلوچ کی حیثیت سے یہ جنگ لڑتے چلے آرہے ہیں جن میں کہیں مثالیں آپ کو دے سکتا ہوں ۔اور جن کا تعلق سرداروں کے خاندان سے ہیں میرے خیال میں ابھی ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ قبائلیت قومی ضروریات کو پوری نہیں کرسکتی اور اب تو بلوچستان میں کوئی مخصوص قبائلی علاقہ بھی نہیں لہذا وہ اب بلوچ بن کے لڑیں تو اس سے قومی جنگ آزادی کو مزید تقویت ملے گی۔


مارک کنرا:حالیہ ایک انٹرویو میں مھران مری نے کہا تھا کہ بلوچ جدوجہد کی بنیاد مری اور بگٹی قبائل نے رکھی ہےجبکہ موجودہ بلوچ جدوجہد جس میں ان قبائل سے بڑھ کر عام بلوچ شریک ہے۔ آپ اس بیان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟


ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ : جہاں تک مھران مری کے انٹرویو کا تعلق ہے میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ بلوچ جدوجہد یہ دونوں قبائل نے شروع کی تھی بلکہ یہ جنگ پوری قوم نے شروع کی تھی کیونکہ واجہ خیربخش مری ایک بہت بڑے قد آور شخصیت تھے یقینا وہ ایک مرکز کہہ لیں بلوچوں کے لیے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں بلوچوں کے لیے ایک غیر متنازعہ شخص تھے ۔ ان کی قربانیاں اپنی جگہ اور واجہ اکبر خان بگٹی کی قربانیاں اپنی جگہ جو ضرور بلوچ قوم کو متاثر کرچکے ہیں جہاں وہ پیراں سالی میں بھی وہ اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوئے۔بلوچ قوم ان دونوں شخصیات پہ قومی رہنما کی حیثیت سے بھروسہ کرتی تھی۔جو بھروسہ قوم واجہ خیربخش مری پر کرتے تھی شاید اب ان کے خاندان میں بہت کم لوگوں پہ قوم بحیثیت قبائلی سردار بھروسہ کرئے لیکن بحیثیت بلوچ کے وہ زیادہ موثر ثابت ہوسکتے ہیں۔اس دعوی کی بجائے کہ ہم قبائلی بنیادوں پر یہ جنگ لڑیں اگر بلوچ بن کر جنگ لڑیں تو بلوچ قوم کی ، بلوچ نوجوانوں کی اور بلوچ وطن کی زیادہ کمک وہ مدد حاصل ہوگی ، ان دوستوں کو ۔


مارک کنرا: پاکستانی ادارے اور دانشور کہتے ہیں کہ ایران آپ کی مدد اور پشت پنائی کر رہا ہے، جبکہ دوسری طرف مھران مری جیسے بلوچ رہنما نے بی ایل ایف کا نام لیے بغیر کہا کہ ایران،سعودی عربیہ اور آئی ایس آئی بہت سے نئے بلوچ کارکنان کو مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں، اس بیان میں کتنی صداقت ہے؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: مجھے نہیں معلوم کہ مذکورہ شخص نے کس کے متعلق یہ بات کی ہے کہ اس کو ایران سے مدد مل رہی ہے یاسعودی سے ، خیر سعودی اور ہمارے بارڈر نہیں ملتے ہیں۔اگر آپ کا کہنا ہے کہ ان کا اشارہ ہماری طرف تھا ہم ایک انڈپینڈنٹ جنگ لڑرہے ہیں، آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ ہمیں انڈیا کی بھی مدد کی ضرورت ہے ہمسائے کے طور پر ہمیں ایران کی بھی مدد کی ضرورت ہے ، افغانستان کی ضرورت ہے اور دنیا کی جو جو قوتیں ہیں بلوچ قوم کو مظلوم و محکوم سمجھ کر ان کی جدوجہد کی مدد کریں ہم ان کوخوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ ہماری جنگ آزادی کو تسلیم کریں۔ہم یورپی یونین، برطانیہ ، امریکہ، فرانس سمیت انڈیا تمام قوتوں سے گلف ریاستوں سے سب سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچ جنگ آزادی کو سپورٹ کریں۔لیکن جہاں تک بات ہے ایران ، سعودی عرب کی تو نہ ان لوگوں نے ہمیں سپورٹ کیا ہے اور نہ ہی اس وقت دیکھنے میں آرہا ہےکہ کچھ ایسا ہو لیکن خدا کرے کہ یہ بلوچ جنگ آزادی کو سپورٹ کریں ۔


مارک کنرا: رواں سال کے آغاز سے پاکستان پر چند بڑے حملے ہوئے ہیں،لاہور انارکلی مارکیٹ دھماکہ کے بعد آپ نے کہا تھا کہ ہر جنگِ آزادی منفرد ہوتی ہے اورمقبوضہ قوم کی جنگی حکمت عملی پر منحصر ہوتی ہے۔کیا آپ جنگِ آزادی میں عام شہریوں کے قتل کو جائز قرار دے رہے ہیں؟


ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: نہیں میں کبھی بھی بحیثیت انسان سول آبادی کے مارنے کی حمایت میں نہیں ہوں۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہماری سرزمین کی ، ہمارے خطے کی ، ہمارے دشمن کی نفسیات باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ وہ نہ ہمارے مرد و زن جانتی ہے نہ اسے چھوٹے معصوم بچوں پہ رحم آتا ہے ۔پیراں سال مرد ، عورتوں سے لے کر نوجوان بلوچوں کو گھسیٹ کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے ، ان کو قتل کرتا ہے ،ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتا ہے ۔ہمارے اسکالرز جو مختلف یونیورسٹیز میں پڑھتے ہیں ان کو قتل کرتا ہے ،آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی فہم ، عقل و شعور سے ڈرتا ہے اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ میں نے انہی کنٹیکٹس میں بات کیا تھا کہ ہماری جدوجہد دنیا کی باقی جدوجہد سے تھوڑا سا مختلف ہے ، دشمن کے لحاظ سے ، جغرافیہ کے لحاظ سے لہذا اسی لیے ہم ایک پیچیدہ جنگ لڑرہے ہیں تو اسی لیے میں نے کہا تھا کہ ہماری جنگ مختلف ہے، اسی لیے ہماری حکمت عملی بھی دیگر روایتی ، غیر روایتی گوریلہ وارکہہ دیں ، اربن وار کہہ دیں جو بھی کہہ دیں ان سے مختلف ہے۔بلوچ کو ایک عجیب قسم کے دشمن کا سامنا ہے نہ اس کے پاس اخلاقیات ہے نہ ان کے پاس کلچرل ویلیوز ہیں نہ وہ جو دشمنی کی حد ہے اس کو پہچانتی ہے ۔ تو اس کنٹیکٹس یا نقطہ نظر سے میں نے بات کی تھی کہ جی ہم ایک مختلف جنگ لڑرہے ہیں۔


مارک کنرا: براس نے کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کو ریکوڈیک ڈیل سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی، نئی ڈیل میں بلوچستان کو25%فیصد دینا اور بلوچوں کو روزگار فراہم کرنا شامل ہے،آپ اس ڈیل کی کیوں مخالفت کرتے ہیں، جبکہ بلوچستان اسمبلی نے اس ڈیل کی رضامندی دی ہے؟


ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: جہاں تک آپ نے بلوچستان اسمبلی کا ذکر کیا تھا کہ اس نے ریکوڈک یا سیندک پروجیکٹ کی مخالفت نہیں کی ۔ وہ تو بلوچوں کی نمائندہ اسمبلی نہیں ہے وہ آئی ایس آئی کے منتخب کردہ لوگ ہیں ۔ کچھ تک کا نام ان کے گائوں کے لوگ نہیں جانتے وہ یہاں ایم این اے ، ایم پی اے بن گئے ہیں ، کچھ سینٹ کے چیئرمین بن گئے، کچھ بلوچستان سے ڈپٹی اسپیکربن گئے ۔ایسے لوگ ہیں جن کو بلوچ جانتے تک نہیں ہیں لیکن وہ سلیکٹڈہیں ۔ جیسے میں سینٹ کے موجودہ چیئرمین کا کہوں یا آپ وزیر اعلی کو دیکھ لیں جو میرے ہی علاقے سے تعلق رکھتا ہے اس کی پاپولر سپورٹ کیا ہے اس کو تو پانچ سو ووٹ بھی نہیں ملے تھے لیکن اب وزیر اعلی ہے۔


میں یہی سمجھتا ہوں کہ بلوچ من حیث القوم کبھی بھی اس اسمبلی کو اپنی جائز انسانی اور قومی آزادی کا ذریعہ نہیں بنایا ہے اور نہ اس پر اعتماد کرتی ہے۔میری آپ میڈیا والوں سے بھی یہی گزارش ہے اس حقیقت کا ادراک کریں کہ یہ اسمبلی پاکستان کی ملیٹری انٹیلیجنس اور آئی ایس آئی کی تیار کردہ ہے اور باری باری کچھ لوگوں کو لایا جاتا ہے جب وہ تھوڑے پرانے ہوجاتے ہیں تو نئے لوگ لاتے ہیں۔اس لیے بلوچ کا نمائندے نہیں ہیں اور نہ ہی اس اسمبلی کو نمائندہ سمجھتے ہیں ۔

میں براس کے اس وارننگ کی تائید کرتا ہوں کہ ریکوڈک کے حوالے سے اس کمپنی کو کہنا چاہتا ہوں ، چائنیز کو سی پیک کے حوالے سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک بلوچ قومی آزادی کی جنگ لڑنے والے طاقتور فریق جو اس وقت موثر ہے وہ بلوچ تحریک آزادی کی جو جنگ لڑرہے ہیں وہی ہیں ، ان کی مرضی و منشا کے بغیر اگر آپ جعلی لوگوں سے معاہدہ کریں گے ،آپ بلوچوں کا استحصال کریں گے یا آپ بلوچوں کی تذلیل کریں گے اپنی پروجیکٹس کو بنانے میں یا بلوچوں کوان کے آبائی علاقوں سے نکال کر کرکے آئی ڈی پیز بنائیں گے ، یا بلوچوں کی ہر وقت عزت نفس کو مجروح کریں گے تو بلوچ کبھی ایسے پروجیکٹس چاہے وہ سی پیک کی شکل میں ہو ، ریکوڈک کی شکل میں ہو، یا سیندک کی شکل میں یا کہیں اور جو ان لوگوں نے نیا آئل اینڈ گیس منرلز ایکسپلور کیا ہے نہ ہی بلوچ ان کو کسی غیر کے ہاتھوں فروخت کرنے کی اجازت دیتا ہے، کبھی نہیں ۔


مارک کنرا: پاکستان ایک عرصے سے الزام لگا رہا ہے کہ بی ایل ایف کو انڈیا کی مالی کمک اور تعاون حاصل ہے، کیا یہ سچ ہے؟ اگر نہیں ،تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہندوستانی عوام اور حکومت بلوچ جنگ کی مدد کریں؟


ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: وہ تو شروع سے الزام لگاتے رہے ہیں، یہ تو پاکستانیوں کی ، پنجابیوں کی عادت ہے جو اپوزیشن میں ہوتا ہے نواز شریف ان کو کہتا ہے کہ جی آپ انڈیا کے ایجنٹ ہیں ۔جب عمران خان آتا ہے اپوزیشن میں تو اس کو کہا جاتا ہے ۔ یہ تو پاکستان میں کلچر ہے سیاسی سوچ اور بیانیہ ہے جو کسی پر یا ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں ۔مگر ہماری بات مختلف ہے ہم آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں لہذا وہ کوشش کررہے ہیں کہ دنیا میں اس بیانیے کو مضبوط کریں لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم انڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کرے بحیثیت قریبی ہمسایہ لیکن انڈیا ابھی تک بلوچ قوم کی کھل کر حمایت نہیں کررہا اور نہ وہ بلوچ کو مالی سپورٹ کررہا ہے۔تو ہم اپیل کرتے ہیں انڈیا سے جی آپ دنیا کی سب بڑی جمہوریت اور دنیا کی بڑی آبادی آپ کی ، آپ دنیا کی خوبصورت جمہوریت کے مالک ، لہذا ہمسائے کی حیثیت سے ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ انڈیا کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ مداخلت کرے ، ہم اس کو دعوت بھی دیتے ہیں اور خوش آمدید بھی کہیں گے۔ لیکن جہاں دشمن کا، پنجابیوں کا جو جھوٹا اور بلیک پروپیگنڈا ہے وہ آپ خود پوچھ لیں ہماری کس حد تک امدادکرچکے ہیں لہذا آپ ہی کی توسط سے دوبارہ انڈین گورنمنٹ ، انڈین اسٹیٹ سے میں اپیل کرؤں گا، عرض کروں گا نہ صرف انڈیا سے بلکہ ریجن کے تمام ممالک سے ، انٹرنیشنل پاور ز سے کہ وہ بلوچوں کی حمایت کریں ، کھل کر حمایت کریں ۔ جو بھی ہو مالی حوالے سے ، سفارتی حوالے سے بلوچستان کے مہاجرین کے حوالے سے دنیا کے تمام ممالک بلوچوں کی مدد و کمک کریں ، حمایت کریں ۔ جہاں تک ان کی بات ہے کہ جی ہمیں انڈیا فنڈنگ کرتی ہے یہ مکمل جھوٹا اور نفرت انگیز پروپیگنڈا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔