ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو ,تربت,ھوشاپ

تربت: ھوشاپ میں پاکستانی فوج کی مخبروں کی اطلاع پر حملہ ، 7 سرمچار شہید | ڈرون حملوں پر رپورٹ

تربت: ھوشاپ میں پاکستانی فوج کی مخبروں کی اطلاع پر  حملہ ، 7 سرمچار شہید | ڈرون حملوں پر رپورٹ

MAR

08
08 / 03 / 2022 شہید

تربت: پاکستان کے عسکری ذرائع نے ھوشاپ میں انٹلی جنس بنیاد (IOB) پر کی گئی ایک کارروائی کے نتیجے میں 6 بلوچ سرمچاروں کو شہید کرنے کا دعوی کیا ہے۔


شہید کیے گئے سرمچاروں کی تصاویر بھی جاری کردی گئی ہیں تاہم اس حوالے سے مزید معلومات دستیاب نہیں کہ انھیں کن حالات میں شہید کیا گیا اور اس جھڑپ میں پاکستانی فوج کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا۔


مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ ان علاقوں میں منگل کی صبح کو ہیلی کاپٹروں کی غیر معمولی پروازیں دیکھی گئی ہیں۔


عسکری ذرائع نے بلوچ سرمچار حاصل خان عرف دودا ولد شھداد سکنہ ھوشاپ ، محمد الیاس عرف رحمدل ولد زباد سکنہ تل سر ھوشاپ ، وشدل عرف جامی ولد ہاشم سکنہ ڈل سر شاپک ۔ خالد حاصل ولد حاصل سکنہ کلگ جکی ، وقاص احمد ولد نزیر احمد (تاریخ پیدائش: 2 جون 2006) گورنمنٹ ہائی اسکول تجابان ، شاہ فہد ولد ابابکر سکنہ پیدراک اور ناظم جان ولد پیربخش سکنہ شاپک ، شھرک تربت کی شہادت کا دعوی کیا ہے۔آزادی پسند ذرائع نے بھی ان شہادتوں کی تصدیق کی ہے تاہم انھوں نے کہا ہے کہ اس متعلق مزید معلومات متعلقہ تنظیم کی طرف سے ہی جاری کیے جائیں گے۔


«غیر معمولی حملوں میں بلوچ سرمچاروں کا بھاری نقصان»


حال ہی میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے دو مختلف کیمپس پر دو ڈرون حملوں کے نتیجے میں بلوچ وطن کے محافظوں کو سنگین جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ مختصر عرصے میں یہ تیسرا ایسا حملہ ہے جس میں بلوچ سرمچاروں کو جانی نقصان پہنچا ہے۔


خفیہ ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطابق تمپ اور متصل علاقوں میں پاکستانی فوج نے فروری کے مہینے میں تین ڈرون حملے کیے ہیں جن میں دو بی این اے کے کیمپس پر کیے گئے ان حملوں میں مجموعی طور پر 16 سرمچار شہید ہوئے تھے جبکہ ایک حملہ 6 سے 8 فروری کے درمیان تمپ کے قرب و جوار میں نامعلوم ہدف پر کیا گیا جس میں کسی قسم کے جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔


بی این اے کے ترجمان مرید بلوچ نے میڈیا پر جاری کردہ اپنے بیان میں ان حملوں کو ڈرون حملہ قرار دیا تھا۔ اس سے ان افواؤں کی تصدیق ہوئی جو گذشتہ کچھ عرصے سے سامنے آرہی تھیں کہ پاکستانی فوج بلوچ سرمچاروں کے خلاف ڈرون حملوں کے استعمال پر غور کر رہی ہے۔


عسکری تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان ڈرون حملوں کے لیے ترکی کے تیار کردہ ڈرون استعمال کرسکتا ہے جنھوں نے بعض ممالک میں گوریلا جنگجوؤں کے خلاف کامیاب خونریز حملے کیے ہیں۔


افغانستان اور پاکستان کے پختون علاقے وہ خطہ ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا نے طالبان کے خلاف انتہائی جدید ڈرون استعمال کیے تھے۔ان حملوں میں افغان طالبان کے ملاعمر کے بعد دوسرے سربراہ اختر محمود منصور سمیت طالبان کے کئی اعلی قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔


یہ ڈرون حملے اس قدر شدید تھے کہ انھیں ’ دی طالبان پلار‘ یعنی طالبان کا باپ قرار دیا گیا لیکن پے درپے حملوں کے باوجود امریکا کی یہ حکمت عملی ناکام ہوئی اور اکثر نشانے چوکنے لگے۔


مختلف معتبر ذرائع سے جمع کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 2004 سے جون 2013 کی ابتدا تک پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں میں 2021 لوگوں سے لے کر 3350 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اوباما دور میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 1663 سے 2781 تھی، جو بش انتظامیہ کے دور کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تھی۔


پاکستانی طالبان پر بھی ڈرون حملے کیے گئے ملا فصل اللہ جو کہ پاکستانی طالبان کے سربراہ تھا اسے بھی 13 جون 2018 کو افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا۔طالبان نے اپنے اراکین کو ڈرون حملوں سے بچنے کے لیے خصوصی تربیتی کتابچہ ’ ڈرون کا توڑ‘ بھی شائع کیا۔


«ڈرون حملے کیسے کیے جاتے ہیں؟»


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بی این اے کے کیمپس پر حالیہ حملے پاکستانی فوج کی اہم کامیابیاں ہیں جس میں بہتر تکنیک کے ساتھ ان مقامی وطن اور ضمیر فروشوں نے کلیدی کردار ادا کیا جو پاکستانی فوج کو بلوچ سرمچاروں کے بارے میں درست معلومات فراہم کر رہے ہیں۔


ڈرون طیاروں کو ایک پورے سسٹم کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے جن میں کیمرہ ، ریڈیو سگنل ، سیٹلائٹ کنکشن اور دوسرے تکنیکی آلات شامل ہوتے ہیں۔ امریکی ڈرونز میں دو ہیل فائر نامی میزائل لگے ہوتے ہیں۔


بی بی سی کے سینئر تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زھی نے ڈی ڈبلیو کے ایک رپورٹر کو بتایا تھا کہ امریکہ نے اپنے مخبر شمالی علاقوں میں پھیلا دیئے ہیں۔ ان مخبروں کے پاس ڈیرھ انچ کی ایک چپ ہوتی ہے، جس کو آن کیا جاسکتا ہے۔ امریکی مخبر مشتبہ افراد کی کسی خاص جگہ موجودگی کی اطلاع پا کر اس چپ کو آن کرکے وہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اس طرح اس چھوٹی سی چپ سے امریکی مرکز کو مشتبہ یا مطلوب دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع مل جاتی ہے، اور یوں قریب بیس منٹ کے وقفے میں اس جگہ پر ڈرون حملہ کیا جاتا ہے۔


واضح رہے کہ پاکستانی ڈرون حملوں کی تکنیک مختلف ہوسکتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس پورے عمل میں مخبروں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ مخبر بیرونی سے زیادہ تنظیم کے اندرونی ہوتے ہیں جن کی تلاش ہمیشہ مشکل رہی ہے۔


«ڈرون حملوں سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟»


ہم نے بعض جنگی ماہرین کے سامنے یہ سوال رکھا ان کے جوابات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈرون سمیت کسی بھی حملے سے بچنے کے لیے چوکس رہنا اور دشمن کی طاقت اور حکمت عملی سے آگاہ رہنا ضروری ہے۔ان حالیہ حملوں کی نوعیت کوئی بھی ہو یہ طے ہے کہ ان حملوں میں مخبروں کو درست اہداف کے بارے میں سوفیصد معلومات تھی اور انھوں نے ہی پاکستانی فوج کی رہنمائی کی ہے تو سب سے پہلے کیمپس کی دوبارہ تشکیل، ری گروپنگ اور تمام ساتھیوں کو سیکورٹی چیک کے عمل سے گزارنا ضروری ہے تاکہ اس بات کی نشاندہی ہوسکے کہ دشمن تک درست معلومات کس طرح پہنچی۔


گوریلا کیمپس عموما دشمن کے حملوں کو دیکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی بدلتے ہیں جس سے دشمن کی پہلی حکمت عملی ناکامی سے دوچار ہوتی ہے اور اسے پھر سے مشکل حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ موجودہ صورتحال انتہائی پیچیدہ اور تاریک ہے جس میں دشمن کی طاقت اور اس کی حکمت عملی کے بارے میں درست معلومات سے زیادہ سچ کے قریب تر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔اس لیے دیگر کیمپس کو اپنی باری کا انتظار کرنے کی بجائے اپنی حکمت عملی تشکیل دینی ہوگی کیمپ کے معمول کی سرگرمیوں کو باہمی مشورے سے بدلنا اور ہر ممکن حد تک چھوٹے پیکٹس میں تقسیم ، ہمیشہ چوکنا رہنا اور حرکت میں ہونے سے دشمن کے حملوں کو ناکام کیا جاسکتا ہے۔


پہاڑوں میں ڈرون حملوں کو ناکام کرنا اتنا مشکل نہیں سب سے پہلے اس بات کو قبول کرنا ضروری ہے کہ دشمن بلوچ سرمچاروں کے خلاف ایک جدید ٹکنالوجی کے استعمال کے قابل ہوچکی ہے اب اسے کیسے شکست دیا جاسکتا ہے اس پر حکمت عملی ترتیب دینا چاہیے۔


ہم فرض کرتے ہیں کہ ڈرون حملے ایک خاص مقام کی نشاندہی کے بعد کیے جاتے ہیں تو اس سے بچاؤ کا طریقہ بھی یہی ہوگا کہ آپ کسی خاص نکتے پر زیادہ دیر تک قیام نہ کریں اور جگہ بدلتے رہیں۔ جب آپ کی تعداد قیام کے وقت کم ہوگی تو جانی نقصان بھی کم ہوگا۔


اس گفتگو میں انھوں نے زور دیا کہ یہ سب کرنا اتنا آسان نہیں لیکن جانی نقصان کو کم کرنے کے لیے فوری حکمت عملی بنانا بھی ناگزیر ہے۔


ذریعہ: پاکستانی فوج+اسٹاف رپورٹر | تصویر: پاکستانی فوج