ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شدت کے ساتھ اجاگر کریں. حاتم بلوچ

ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شدت کے ساتھ اجاگر کریں. حاتم بلوچ

NOV

26
26 / 11 / 2023 بی این ایم

انسانی حقوق کے عنوان پہ منعقد ہونے والے بلوچ نیشنل موومنٹ کے تربیتی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے سینٹرل کمیٹی کے ممبر حاتم بلوچ نے کہا کہ یہ موضوع سیاسی نظام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اور جن حالات سے ہم گزررہے ہیں وہاں آئے روز ہم انسانی حقوق کی پامالیاں دیکھ رہے ہیں۔


حاتم بلوچ نے انسانی حقوق کے پسِ منظر اور حالیہ دور کے حالات پہ تفصیلی روشنی ڈالی۔اس دوران حاتم بلوچ نے کہا جب جدید انسانی حقوق کا نظام معرض وجود میں لایا گیا تو اس اعلامیے کی تیس(30) شقیں تھیں، جس کی رو تمام انسانوں کو مساوی حقوق دیے جانے پر زور دیا گیا تھا ۔ جس میں غلامی کے خاتمے، انسانی آزادی ، زندہ رہنے کی آزادی ، رائے کی آزادی ، مذہب کی آزادی ، علم کا حق وغیرہ شامل تھے ۔ 


مزید انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے جو اعلامیہ تھا اس میں ممالک اس کے مکمل پابند تو نہیں ، اسی لیے اقوام متحدہ بھی اس ضمن میں ان کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا سکتا بلکہ انہیں فقط تاکید ہی کرسکتا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ دراصل انسانی حقوق ملکی قوانین کا حصہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے قوانین کے تحت انہیں لاگو کرنے مجاز ہیں ۔جس میں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت اور بنیادی ضروریات تک لوگوں کی رسائی کو ممکن بنانا وغیرہ۔لیکن بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں طاقتور ممالک بھی ان حقوق کی پامالی کرتے ہیں ، جیسے امریکہ اور نیٹو کا افغانستان میں کردار۔اور مقبوضہ بلوچستان میں ہم پاکستان کی بربریت دیکھ رہے ہیں اور یہ گمان ہوتا ہے پاکستان کو انہی ممالک کی مدد حاصل ہے کیوں کہ پاکستان مغربی مفادات کی تکمیل کے لیے آخری حد تک انسانی حقوق کی پامالیاں کرتا رہا جسے ہم افغان جنگ میں دیکھ سکتے ہیں۔اسی لیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پہ پاکستان سے کوئی باز پرس ہی نہیں کررہے اور اگر ہم یہ سوچھیں کہ وہ ایسا کریں گے تو یہ ہماری خام خیالی ہوگی۔ ہاں البتہ اس کے باجود اگر ہم اپنی آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائےں تو ایسا نہیں۔لہذا ہمیں دنیا کے سامنے اپنے حالات آشکار کرنا چاہیے۔وہ رپورٹ کی صورت میں یا دیگر ذرائع سے۔ کیوں کہ مفادات کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں اور جونہی مغرب کے لیے پاکستان کی وقعت نہیں رہے گی تو وہ ان معاملات کو یا ہماری طرف سے ارسال کیے گئے رپورٹس یا دیگر ذرائع کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے گریزاں نہیں ہوگا۔


مزید انہوں نے کہا کہ بحیثیت سیاسی کارکن ہمیں اس بات کی جانکاری ہونی چاہیے کہ جب بھی ان ممالک کے مفادات کسی سے وابستہ ہوں تو وہاں اس مسئلے کو زیادہ ترجیح بنیادوں پہ سامنے لاتے ہیں اور جہاں ان کے مفادات وابستہ نہ ہوں وہاں خاموشی بھی اختیار کرتے ہیں۔آج چوں کہ پاکستان سے ان کے مفادات وابستہ ہیں اسی لیے انہوں نے چپ سادھ لی ہے ، لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔


حاتم بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان میں ان کے ہاتھوں ظلم و جبر کی کہانی عالمی سطح پہ اجاگر نہ ہو، اسی لیے بسا اوقات وہ ہمارے ذہنوں کو منتشر کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے ، لیکن ہم جن حالات سے گزررہے ہیں جہاں آئے روز کسی نہ کسی چورائے پہ کسی کی مسخ شدہ لاش ہماری نظروں سے گزرتی ہے، ایسا کوئی دن نہیں جب کوئی بلوچ قابض عسکری اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار نہ ہو، لوٹ مار، گھروں کو جلانا، لوگوں کو جبری طور پر علاقہ بدر کرنا تو روز کا معمول بن چکا ہے اسی لیے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شدت کے ساتھ اجاگر کریں ، تاکہ پوری دنیا کو یہ جانکاری حاصل ہو کہ بلوچستان میں قابض ریاست کی بربریت کس نہج پہ پہنچ چکی ہے اور بلوچ کا اصل مسئلہ کیا ہے۔


 


 سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر جلال بلوچ کی سربراہی میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے مرکزی سطح کے تربیتی پروگراموں کے سلسلے کا یہ گیارواں پروگرام تھا۔ جس کی نظامت کے فرائض جرمنی چیپٹر کے ممبر صادق سعید بلوچ ، پروگرام سہولت کار کے فرائض بی این نیدرلینڈچیپٹر کے نائب صدر دیدگ بلوچ نے انجام دیے۔