ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

بلوچ شعور یافتہ و تاریخ سے واقف لوگ ہیں کمال بلوچ

بلوچ شعور یافتہ و تاریخ سے واقف لوگ ہیں کمال بلوچ

DEC

30
30 / 12 / 2023 مضامین

بلوچ سماج کو جاہل و پسماندہ کہنے والے نام نہاد پاکستانی چند صحافی اور دانشور اسلام آباد میں بلوچ خواتین کے ساتھ ہونے والے تشدد پر اپنے بند عقل کے تالے کھول دیں ۔یہ جاہل و ظالم ریاست بلوچوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے اسلام آباد میں بیٹھنے والے حکمران اسلام کے چمپین ہونے کے دعویدار ہے ،دراصل یہ اصل میں قانون اور انسانی حقوق سے نا واقف لوگ ہیں ۔


انگریزوں کے بقایا جات جو پنڈی اور لاہور میں براجمان ہو کر اسلامی ریاست کے دعویدار ہے ان کا نظام کفر سے بھی بدتر ہے، کفری نظام میں بھی ظلم و جبر اور عورتوں اور بچووں پر تشدد نہیں ہوتا جس طرح ہمارے خواتین کے ساتھ ہورہا ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کرینگے۔


جو لوگ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ ہم اس کا کوئی رد عمل نہیں دینگے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔بلوچ قوم کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ دوستوں سے دغا اور دشمنوں کا جبر کبھی فراموش نہیں کرتے۔ بلوچ کا یہ طرز عمل اسے دوسروں قوموں سے ممتاز بناتی ہے۔پاکستانی نصاب تعلیم ایک ایسے نسل کو پروان چڑھارہی ہے جو نہ اپنی تاریِخ سے واقف ہے اور نہ انسانی حقوق کے متعلق کچھ بولنے کی ہمت کرتے ہیں۔


زمانہ طالب علمی میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں اور درمیانی طبقے کے طالبعلموں سے انتظامیہ کے رویوں سے نالاں اور احساس کمتری کا شکار رہتے تھے۔کیونکہ ان کے بات کرنے کا انداز اور طریقہ مختلف ہوتا تھا اسکی وجہ کا اس زمانے میں اندازہ نہیں ہوتا تھا لیکن اب اس تفاوت کا اندازہ ریاستی نظام تعلیم و تربیت تھی جس کی وجہ سے ہمارے سماج میں بھی ایسے لوگوں نے جنم لیا جو روبوٹ کی طرح تھے۔ اُس وقت مجھ جیسے بہت سے لوگ اس بات سے بے خبر تھے نہیں جانتے تھے کہ ایسے کیوں ہورہا ہے اب یہ إحساس پختہ ہوتا جارہا ہے ریاست کےتعلیمی اداروں میں تربیت اسکی کی وجہ ہے۔


بلوچ سماج میں پرورش پالنے والوں کو احساس کمتری کا شکار اور جاہل کہتے تھےاسکا احساس اب مجھے ہے لیکن یہ کمی بہت سے لوگوں کو اب بھی ہوگا کیونکہ یہی نظام تعلیم ہے جو پاکستانی ریاست ہمیں دیتی ہے سیاسی تربیت کی کمی کی وجہ سے ہم اس کے شکار ہوجاتے ہیں مگر کچھ دوست ہیں جو بی ایس او کے عظیم تربیت کی بدولت اس بات کااندزہ کرسکتے ہیں کیوں یہ ماحول پیدا کی گئی تھی۔


آج جو احساس اور شعور ہم میں زندہ ہے یہ بی ایس او آزاد اور بلوچ شہیدوں کی قربانیوں کے مرہون منت ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو پڑھائیں اور اس کے ساتھ انہیں بی ایس او آزاد جیسی درسگاہوں میں ضرور بھیجیں۔


اب بات ان لوگوں کا جو بلوچ قوم کو جاہل اور پسماندہ ہمیں ایک منصوبے بندی کے تحت کرتے ہیں تاکہ قوم میں احساس کمتری پیدا کرسکے۔ایک کہاوت ہے کہ جہاں لہو زمین میں جذب ہوجاتا ہے تو وہ زمین کبھی بانجھ اور ناکام نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ اپنا رنگ دکھانا شروع کردیتا ہے۔ بلوچ جاہل نہیں لیکن پسماندہ ضرور ہے اور اس پسماندگی کی وجہ نو آبادیاتی نظام اور اُس کی تعلیم ہے اور اسی نو آبادیاتی نظام کی تعلیم نے کچھ حد تک بے حسی کو جنم دیا ہے لیکن یہ بے حسی کو بلوچ شہیدوں کا بہتا لہو زائل کررہا ہے۔


مگر انہیں علم نہیں کہ بلوچ تاریِخ کو مسخ کرکے پیش کرنے والے غیر ملکی لٹیرے اور ان کے ایجنٹ رہے ہیں۔لیکن ان غیروں نے بھی کئی مقام پر بلوچوں کو غیرتمند اور تہذیب یافتہ قرار دیا ہے۔ جس طرح پاکستان نے ان چھہتر سالوں میں ہماری تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے کوشش کی ہے لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی۔


بلوچ تاریخ عہد وفا کا نام ہے،بلوچوں نے محدود وسائل کے باوجود ہر طاقت ور دشمن کے سامنے مزاحمت کی راہ اپنائی ہے اور اپنا رہی ہے۔بلوچ زمین قربانیوں،شعور اور زانت کی زمین ہے۔


مکران سے لیکر ڈیرہ غازیخان تک قوم کی مہمان نوازی اور میار جلی سے ہر باشعور فرد واقف ہے۔سب نے دیکھا کہ ڈیرہ غازی خان میں کس طرح ایک بلوچ پولیس والے نے اپنی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے مہمان نوازی کی مثال پیش کی جو بلوچیت کی نشانی ہے۔لیکن کچھ ایسے بلوچ ہیں جو بلوچ کی تاریخ کومسخ کرنے میں پاکستان کے ساتھ قدم بہ قدم ساتھ دے رہے ہیں۔


بلوچ قوم کا رویہ بلوچ سماج کا عکس ہے جو اجتماعی قربانی کے فلسفے پر قائم ہے۔جس تاریخ کو گل بی بی، حمل جئیند، میر محراب، بالاچ مری،غلام محمد اور دیگر شہیدوں نے اپنے مزاحمت سے زندہ رکھا۔اگر بلوچ کو سمجھنا ہے تو اسکی سماجی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ بلوچ شعور یافتہ و تاریخ سے واقف لوگ ہیں نہ کہ پسماندہ اور جاہل ہے۔


بلوچ رویہ بلوچ سماج کی اصل شکل عکاسی کرتی ہے جو خود اجتماع کے لئے قربان کرتی ہے یہی تاریخ گل بی بئ اور ھمل جیھد میرمہراب خان اور بلوچوں کی تاریخ ہے اگر انسان تاریخ کو سمجھنا چاہتے تو اُس کی سماجی کی ساخت کوسمجھنے کی کوشش کریں بلوچ جاہل و پسمامندہ نہیں بلوچ باشعور تاریخ سے واقف لوگ ہیں۔


بس بد قسمتی یہی ہے بلوچ اپنی زمین کا مالک نہیں جس زمین پر غیر قابض وہ جو چاہے بول سکتے ہیں۔ مگر سچ یہ اگر بلوچ کی اصل تاریخی ساخت کو جاننا چاہتے ہیں تو سمی ماہرنگ ،بیبرگ ،گلزار دوست کے اس کاروان کو دیکھیں جس نے بلوچ یکجہتی کی مثال پیش کی ہے۔


پاکستانی ریاست کا رویہ اصل میں جاہلانہ ہے جس طرح پرامن احتجاج کرنے والوں پرتشدد کیا گیا ہے ہم یہ توقع بھی نہیں کرتے ہیں کہ اسلام آباد بلوچ کےلئے سوچتا ہے لیکن بلوچوں کو سوچنا چاہیئے کہ اس ملک کے ساتھ رہنا بلوچ کے لئے ممکن ہے یا ناممکن ہے۔