ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

انسانیت کم لوگوں میں دکھتا ہے تحریر سمیر جیئند بلوچ

انسانیت کم لوگوں میں دکھتا ہے    تحریر سمیر جیئند بلوچ

JAN

02
02 / 01 / 2024 مضامین

انسانیت کم لوگوں میں دکھتا ہے تحریر سمیر جیئند بلوچ بات انسانیت رواداری کی جب آتی ہے تو بدقسمتی سے انسان تو اربوں کے حساب سے موجود ہیں مگر انسانیت آٹے میں نمک کے برابر انسانوں میں نظر آتی ہے ۔ جب ہم اس کی گہرائی میں کھوج لگاتے ہیں تو ہمیں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی ذاتی خواہش لالچ،عدم برداشت اور ابن الوقتی نظر آتاہے ۔ ہم اوپر سے لیکر نیچے تک دیکھیں آج کا ترقی یافتہ سماج یا ترقی پذیر انھیں دائروں( لالچ خودغرضی )میں گھوم کر سماج کو کھوکلا کررہے ہیں ۔ ہر ایک کی خواہش ہے کوئی مجھ سے آگے نہ نکلے اور ترقی نہ کرے ۔ ان بدبختوں سے کوئی پوچھے کیوں کوئی ترقی نہ کرے اگر کسی میں سمجھ بوجھ ہے آپ سے بہتر ہنر اور صلاحیتوں کا مالک سامنے والا ہے تو وہ یہ باگ ڈور کیوں نہ سنبھالے۔ 


کیا آپ نے آب حیات پی رکھی ہے اور زمانے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے جو ہر چیز میں آپ کی موجودگی ضروری ہو ہاں موجود رہیں مگر وہ وزن اٹھانے کی کوشش نہ کریں ، جسے اٹھانے پر آپ اپنے وجود برقرار نہ رکھ سکیں اور سماج کیلے نقصان کا باعث بن جائیں ۔


یہ کہاوت ایسے ہی مشہور نہیں ہوا ہے کہ جتنی چادر ہے اس کے مطابق پاوں پھیلائیں۔ مطلب آپ بھی مر کر خالی ہاتھ جائیں گے۔ 


کسی جاننے والے نے اپنی ذاتی مشاہدہ اور آنکھوں دیکھا حال کسی عیار مکار ،آمر مزاج شخص بارے بیان کیا تھا ، سوچا یہاں شیئر کرتا چلوں تاکہ ان بھیڑیا نما انسانوں کا پردہ فاش ہو نے میں مدد مل سکے، جو انسانیت کے نام پر کلنک اور بدنما داغ ہیں ۔ 


انھوں نے کہاکہ اندازہ 1999،2000 کی بات ہے، انجمن تاجران خضدار کا میٹنگ تھا بحیثت صحافی ہم بھی وہاں پہنچے ۔ وہاں تقریبا 70 سے 80 کے قریب لوگ جمع ہوگئے تھے جو تمام تاجر برادری سے وابستہ تھے ۔ 


شہر کے مسائل بارے بات شروع ہوئی تو موجودہ انجمن تاجران کے نام نہاد صدر عطاء اللہ محمد زئی تھے ،جبکہ دوسرے گروہ کی قیادت شہید حاجی محمد رمضان کر رہے تھے ۔ 


وہ اٹھ کر جاری بیٹھک میں کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ انجمن تاجران کا چناو تاجر برادری آزادانہ کسی کے دباو میں آئے بغیر کریں ، اور اس کیلے موجودہ صدر تاریخ مقرر کرنے کا اعلان آج کریں ۔ 


انھوں نے اب بات ختم ہی نہیں کی تھی کہ بازار کے صدر سمیت ان کے چار پانچ چمچے بڑھک اٹھے ۔ ہم صحافی حیران تھے کیا ہوا؟ چونکہ میں صحافئوں میں کم عمر صحافی تھا ، میری حیرانگی میں اور اضافہ ہوا ۔کیوں کہ ماحول ایک ہی لمحے میں مچھلی بازار بن گیا۔ میٹنگ وڑگیا ۔ جب وہاں چھت سے نیچے ہوٹل میں اترے اور چاہئے پینے کیلے بیٹھ گئے۔ 


یہاں دیگر صحافیوں سے انتہائی حیرانگی میں پوچھا کہ حاجی محمد رمضان نے کوئی غیر اصولی بات نہیں کی نہی کسی پر ذاتی کیچڑ اچھالے ۔ انھوں نے بات کو بغیر گھمائے سیدھے الفاظ میں انجمن تاجران کے صدر کی انتخاب کی بات کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ تو اس میں برائی کیاتھی کہ یہ لوگ اتنے بڑھک اٹھے جیسے ان کے پگڑی کسی نے سر سے اتار کر پھینک دی ہو۔؟ 


دوستوں نے کہاکہ بات یہ نہیں ہے کہ انھوں نے غلط کہا وہ تو سہی فرما رہے تھے۔ مگر جو موجودہ صدر ہے وہ آباو اجداد سے تاجر برادری جن میں اکثیریت اقلیتی برداری کی ہے انھیں بلیک میل کرکے غنڈہ گردی سے بلا مقابلہ منتخب ہوتے آرہے ہیں اور وہ شہر کے ڈون اپنے آپ کو تصور کرتے ہیں کیوں کہ انھیں سیاسی مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے ۔ 


انھوں نے کہاکہ انکے جو بلڈنگ بن رہے ہیں یا بھائیوں کی شادیوں پر جو لاکھوں روپے اڑا ئے جارہے ہیں ،لگژری گاڑیاں رکھتے ہیں۔ وہ انکے برائے نام دکان جس میں مجموعی دس بیس تھان کپڑے ، نہ جانے کتنے سالوں سے پڑے سڑ رہے ہیں اس آمدن سے نہیں آتے ، بلکہ ان تاجروں کا خون پسینہ ہے جو جونک کی طرح چوس چوس کر غنڈہ گردی سے وہ سالوں سے لیتے آرہے ہیں اس کے بعد انکے خاندان والے اس طرح غنڈہ گردی سے لیتے رہیں گے ۔ جس طر آج ان کا رویہ تھا۔ یہ رویہ ان کا بازار میں ہر دکاندار کے ساتھ ایسا ہی ہے تاکہ بازار سے اجارہ داری ختم نہ ہو جائے۔ 


خیر میں نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ یہ جنگلی بیل خود شاید انپڑہ گنوار ہے ،اس لیے سمجھ بوجھ نہیں رکھتا ۔ اگر واقعی عالم ہوتے تو ایسا ہر گز نہیں کرتے ۔ مگر یہ میرا وہم تھا بعد میں ،سرداروں ،مڈل متوسط طبقہ مذہبی جماعتوں ، اور سیاسی پارٹیوں کے قریب اور اندر جاکر مشاہدہ کیا تو ،وہاں بھی عطاء اللہ محمدزئی نظر آئے۔ تعلیمی اداروں سمیت دیگر اداروں میں پہنچا ،بیوروکریٹ دیکھے مزدور رہنما بھی دیکھے یہاں بھی عطاء اللہ محمد زئی موجود تھے۔


کچھ اور شعور پختہ ہوا تو حکمرانوں کو بھی دیکھا ایسے ہی تھے ہر ایک کے ہاتھ میں ڈنڈا پایا۔ جب ان کے نزدیک گیا تو وہ سب خود فوجی ڈنڈے کے نیچے دب گئے تھے ۔ اور آگے مشاہدہ کیاتو فوج کسی اور طاقتور سے ڈنڈے کھا رہی تھی ۔ 


سوچا یہاں حکمرانی کی بھوت ہر کسی کے سر پر سوار ہے، اسلئے ہر کوئی مراعات حاصل کرنے کے چکر میں سرگردان ہے، اسلئے عطاء اللہ محمد زئی بن رہے ہیں۔ چھوڑیں انھیں یہ پارلیمنٹ اور سیٹ کے چکروں سے نکل کر غیر پارلیمانی سیاسی مسلح پارٹی اور تنظیموں کو پرکھتے اور مشاہد کرتے ہیں ۔ جن کے بارے عطاء اللہ محمد زئی جیسا خیال وہم گمان میں نہیں تھا ،سمجھ رہاتھا کہ وہاں ہر چیز دودھ میں دھلا ہوگا ۔ یہاں آکر دیکھا مطالعہ کیا تو کیوبا کا فیڈرل کاسترو ہر دس میں سے نو میں دکھائی دیا ۔ وہ فیڈرل کاسترو جو انقلاب آنے بعد کرسی پر ایسے چمٹ گئے تھے کہ عطاء اللہ محمد زئی کی اوقات بھی نہیں جو اس طرح چمٹ سکتے ۔ موصوف 60 ،65 سال ڈکٹیٹر بن کر کرسی کا مزہ لینے بعد خود مرنے سے پہلے اپنے ہی بوڑھے بیٹے کو کرسی پر بٹھاکر دفن ہو گئے۔


جس کا مطلب ہے کہ اکثر وہ زیر زمین انقلابی پارٹیاں بھی اسی طرح ذہن رکھتے ہیں جو عام سیاسی سماجی جماعتیں پارٹیاں حکمران طبقہ میں ہے ۔ ان میں بھی عطاء اللہ محمد زئی بیٹھا ہوا ہوتا ہے ۔ کوئی بھی حاجی محمد رمضان انسانیت کی بقاء اور ترقی کی خواہش لیکر سامنے آکر حقائق رکھے انھیں موقع نہیں دیاجائے گا ۔ کیوں کہ انکے مراعات کا سوال ہے بھلے نعرہ عوامی ہو مگر وہ اصل چہرے سے نقاب کبھی نہیں ہٹائیں گے اگر کسی نے ہٹانے کی کوشش کی تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہوگا ۔ 


دوست کے انھیں بیان کیے گئے مشاہدات کو مدعے نظر رکھ کر آج بلوچ بیٹی ڈاکٹر مھرنگ بلوچ کی جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلے جہد دیکھتے ہیں تو ذہن میں وہی بیس سال پرانی دوست کا بیان کیے گئے الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں کہ کیا مھرنگ بلوچ بھی حاجی محمد رمضان کی طرح کالے بھیڑیوں کو للکار کر اس طرح کامیاب ہو کر بھیڑیوں کو بے نقاب کریں گی؟ جہا ں ایک طرف حکمران ٹولہ دوسری جانب فیڈرل کسترو جیسے مکار بھیڑیے ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجد بناکر بیٹھنے والے نام نہاد انقلابی کامریڈ ،انھیں کامیاب ہونے دیگیں ۔ جنھیں نام ، شہرت ،ہیرو بننے اور دولت کمانے کی لت سالوں سے لگی چلی آرہی ہے۔؟


اس کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ اس بار انسانیت انسانوں پر فتح پائے گی کیوں کہ مھرنگ کے ساتھ عظیم ہستی شہید حاجی محمد رمضان کی خاندان کی خواتین بچے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی ہیں ۔ تو دوسری جانب انکی بے لوث انسانیت سے عشق ساتھ ہے ۔


ایسے انسان کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا چاہئے کرایہ کے حکمران ہوں یا آستین کے سانپ موجود ہوں کیوں کہ جہاں عمل ہو وہاں لفاظی کردار خود بخود منفی ہوجاتے ہیں ۔ عمل اور انسانیت جیت جاتی ہے۔