ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

مقبوضہ بلوچستان میں وفاق پرستوں کا کردار تحریر: ڈاکٹر جلال بلوچ

مقبوضہ بلوچستان میں وفاق پرستوں کا کردار تحریر: ڈاکٹر جلال بلوچ

DEC

28
28 / 12 / 2023 مضامین

سماج جب جاگ اٹھتا ہے تو اس کے سامنے سدِ سکندری بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ظالم قوت عوامی طاقت کو دبانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ ان حربوں میں دہشت پھیلانا، مذہب کا سہارا لینا، میڈیا اورصحافت کا استعمال، مراعات کے ذریعے یعنی چھوٹی موٹی نوکریاں اور ٹھیکے وغیرہ بانٹنا۔ ان کے علاوہ سب سے خطرناک کھیل جو ہم بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں وہ ہے پارلیمنٹ جس میں بلوچوں کے نمائندے کراچی شہرکے نمائندوں سے تعداد میں کم ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کہتے ہیں کہ ہم بلوچستان کی جنگ ایوانوں میں لڑیں گے ۔ یہ نمائندے قوم پرستی کا لبھادہ اوڑھ کر عوام کو نیند کی گولیاں کھلانے میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں ۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت، گزشتہ تیس سالہ تاریخ میں ، میں نے بذاتِ خود اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کیسے اور کس طرح ریاست کے یہ مہریں عوام کو ان کے اصل مقصد سے بے بہرہ کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔لیکن اس اٹل حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں جب آگ کی تپش اپنی انتہا کوپہنچتی ہے تو وہ لاوا بن کر اپنے راستے میں آنے والی شئے کو جلاکر راکھ کرتا ہے۔ یہی لاوا آج ہم بلوچستان میں دیکھ سکتے ہیں جہاں مکران سے لیکر ڈیرہ جات تک عوام ریاستی نظام کو دنیا کے سامنے آشکارا کرتے ہوئے عوام میں ایسی بیداری جنم دی ہے جس میں ریاستی مہروں کو کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ اس دوران عوام کی طرف سے انہیں جو توقیر ملی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام جاگ اٹھا ہے ، انہی میں سے نئی قیادت ابھر کر سامنے آئے گی، جن میں حوصلہ اور جذبہ ہوگا ، آگے چل کر یہی لوگ کامیابی کا استعارہ بنیں گے۔ 


بلوچ طلبا سیاست سے لے کر آج تک ہمیں ہمارے سیاسی استادوں نے یہ درس دیا ہے کہ سیاست عبادت ہے اورسیاسی تنظیموں اور جماعتوں کا کام عوام کو خوابِ غفلت سے جگانا ہے۔ ہم نے یہ سنا اور مطالعہ بھی کیا ہے کہ ان جماعتوں اور تنظیموں کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر انہیں قابض کی جانب سے ہمہ وقت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور آج ہم اسی دور سے گزررہے ہیں ۔


استعمار کے لیے ایسی جماعتوں کا توڑ بھی ضروری ہوتا ہے لہذا وہ انہی میں سے کچھ لوگوں کو جو ان کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنتے ہیں منتخب کرکے سماج میں قوم کا نجاب دہندہ بنا کرپیش کرتا ہے۔اس ضمن میں اس کے میڈیا سمت دیگر ادارے حرکت میں آنے لگتے ہیں اور ان کے کاسہ لیسوں کے حق میں صفت و ثنا شروع ہوتی ہے ۔البتہ قابض کو یہ خوف بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں میرے انہی گروہوں میں سے کچھ لوگ نکل کر میرے لیے دردِ سر بن جائے اسی لیے ان سیاسی جماعتوں کا نعم البدل ان کے پاس ہوتا ہے اور بسا اوقات تو تین، تین یا اس سے زیادہ جماعتوں کا وجود بھی عمل میں لایا جاتا ہے۔ جیسے بلوچستان میں ایک ہی نظریے کے حامل تین نام نہام قوم پرست جماعتیں ، جنہیں وقتاً فوقتاً اقتدار سونپ دیا جاتا ہے اور ان کی مہار کو مزید مضبوطی سے تھامنے کے لیے قابض اپنی بڑی جماعتوں کو کبھی کبھار ایسے سماج میں اقتدار کی گدی سونپتا ہے تاکہ انہیں احساس ہو کہ نوآبادیاتی نظام میں ہر چیز کا مجاز ایک ہی قوت ہے، جو جب چاہے تبدیلی لاسکتی ہے۔


ظلم و جبر کے اس بازار میں مقامیوں کی اکثریت اس نظام سے گلوخلاصی کی دعائیں مانگتی رہتی ہے ۔ چند ایک لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دعائوں سے زیادہ عمل پہ یقین رکھتے ہیں اور عمل کے یہ دلدادہ قابض کی رٹ کو چلینج کرتے ہیں۔ لیکن بہت جلد قابض کی پوری مشینری بشمول نام نہاد سیاسی جماعتیں بھی ان کے خلاف حرکت میں آتے ہیں۔ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہیں انہیں قابض کی بی ٹیم قرار دیتے ہیں تو کبھی یہاں تک کہنے میںبھی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرتے ہیں کہ دراصل ان لوگوں کو عوام میں پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے ریاستی ایوانوں میں جگہ نہیں ملی اسی لیے اب یہ لوگ ایسے ہتھکنڈوں پہ اترآئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ آج کی نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے خلاف انہی نام نہاد جماعتوں کے رہنمائوں نے کس طرح کا رویہ اپنایااس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ایسے رویوں اور ان کے اوچھے ہتھکنڈوں کو عوام نے دیکھ ، پرکھ اور سمجھ لیا ۔ استحصال کے اس دور میں جو حقیقی رہنما سامنے آتے ہیں وہ سیاست کو استعمار کے خلاف سب سے موثر ہتھیار کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس ضمن میں عوام کو متحرک کرنے کی ہمہ جہت کوششیں شروع ہوتی ہے۔ قابض حقیقی عوامی نمائندوں سے خوفزدہ رہتا ہے اسی لیے وہ ایسی جماعتوں کو نشانے پہ رکھتا ہے ۔اس کی واضح مثال پاکستان نے جب بلوچستان پہ قبضہ کیا تو اس نے سب سے پہلے کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کالعدم قرار دیا ۔ اس نومولود ریاست کے مقتدر اعلیٰ کو اس بات کا ادارک تھا کہ اگر یہ جماعت قائم رہی تو سماج جہاں ان کے رہنمائوں کو کافی پذیرائی حاصل ہے وہ بغاوت کریں گے اور ان کی اس بغاوت کو کچلنا ایک نئی ریاست کے لیے ممکن ہی نہیں۔اسی خوف کی وجہ سے پاکستان نے بلوچستان پہ قبضہ کرنے فوراً بعد بیشتر سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کرکے سزائوں کا مستحق ٹھہرایا۔


قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی پہ پابندی واضح پیغام تھا کہ بلوچ قوم کو سیاسی میدان میں قدم رکھنے کی اجازت ہی نہیں۔بنگالیوں کی جیت بھی ہم سب کے سامنے ہیں جب انہوں نے سیاسی میدان میں واضح اکثریت حاصل کرلیا تو پنجاب کے مقتدر اعلیٰ کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی ۔لیکن بنگال میں عوام کو تیار کرنے میں ان کی سیاست نے کلیدی کردار ادا کیا تھاجو بالآخر ان کے مقصد کی کامیابی کی وجہ بنی۔ ہمارے ہاں بعدازاں محکوم اقوام کی جماعت نیپ وجود میں لایا گیا اس کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ان کی قائم کردہ آئینی حکومتوں کو زمین بوس کیا گیا۔5 نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد پندرہ بیس سالوں تک بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے قیام کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔بعدازاں بزنجو نے پاکستان نواز جماعت قائم کی لیکن وہ بھی بلوچوں کے لیے شامِ یلدا ثابت ہوا۔ 1987ء میں جاکر بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس جماعت کا مقصد بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ایندھن فراہم کرناتھا ۔ کیوں کہ قبل ازیں جتنی تحریکیں شروع ہوئی تھیں وہ فقط مسلح جدوجہد کے گرد گردش کرتے تھے ۔ اس جماعت کے رہنمائوں بالخصوص شہید فدا احمد کا خیال تھا کہ عوام کے ساتھ جڑے رہنا ہی تحریک کی کامیابی کا ضامن ہو گا ۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد فدااحمد بلوچ کو سرِ عام گولیوں کا نشانہ بناکر شہید کیا جاتا ہے۔ ان کی شہادت کے بعد باقی کے رہنما پاکستانی ایوانوں میں جانے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ آگے چل کر جماعت کانام بھی تبدیل ہوگیا اور انہوں نے 1988ء کے انتخابات میں حصہ بھی لیا ۔ لیکن بہت جلد یہ جماعت دو حصوں مینگل اور حئی میں منقسم ہوگیا۔ یہی قابض کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں یونہی تقسیم کرتا رہے تاکہ مقامی افراد اپنے اصل مقاصد سے بیگانہ ہوکے آپس میں دست و گریبان رہیں۔ اب یہ دونوں جماعتیں قابض کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگاتے رہے سلسلہ ہنواز جاری ہے۔اس تقسیم کے بعد سرداراختر جان نے اپنی جماعت کا نام تبدیل کرلیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ جماعت بھی دوحصوں مینگل اور عوامی میں تقسیم ہوگئی۔ یعنی اب قوم پرستی کا لبھادہ اوڑھے تین جماعتیں سرگرم ہوگئے ۔ 


ایک جانب قوم اور وطن کے سودا گر منڈی میں اپنی بولی بڑھانے کی جدوجہد میں مصروف تھے تو دوسری جانب قوم کے نجات دہندہ پہاڑوں کا رخ کرنے کے ساتھ ساتھ حقیقی سیاسی عمل کو پروان چڑھانے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔ لہذا اسی تگ و دو میں واجہ غلام محمد بلوچ اور اس کے ہمنواء، وفاق پرستوں کو خیرباد کہہ کر بلوچستان نیشنل موومنٹ کو ایک آزادی پسند غیر پارلیمانی سیاسی جماعت کے روپ میںسامنے لانے میں کامیاب ہوگئے ۔ آزادی پسند جماعت کے معرضِ وجود میںآنے کے بعد ریاست کے اوسان خطا ہوگئے لہذا اس نے اپنی پوری مشینری بشمول وفاق پرستوں کے آزادی پسند جماعت کو زمین بوس کرنے پہ سرف کردیا۔ ریاست اور اس کے حواریوں کے تمام اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود یہ آزادی پسند جماعت جو ازاں بعد بلوچ نیشنل موومنٹ کے نام سے سامنے آیا ، عوام میں پذیرائی حاصل کرتا گیا ۔جماعت کی یہ پذیرائی سامراج کے لیے موت کا پیغام تھا لہذا اس کے مقاصد کو دوام بخشنے والوں کو جب بلوچ نیشنل موومنٹ کو کائونٹر کرنے میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سامراج نے واجہ غلام محمد اور اس کے ساتھیوں کو پہلے جبری گمشدگی کاشکار بنایا اور ازاں بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک کر واضح پیغام دیا کہ بلوچ سماج میں حقیقی سیاسی جماعتوں کو ہر گز ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا جو عوامی مفادات کی تکمیل کے لیے برسرِ پیکارہوں۔ لیکن واجہ غلام محمد بلوچ نے جماعت کو جن خطوط پہ قائم کیا تھا اس کا زوال پذیر ہونا ممکن ہی نہیں کیوں پارٹی قائد اور اس کی ٹیم نے اس مختصر عرصہ میں اداروں کے استحکام پہ توجہ مرکوز کیا جس کی بدولت بلوچ نیشنل موومنٹ سینکڑوں رہنمائوں اور کیڈرز کی شہادت اور جبری گمشدگیوں کے باوجود نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ مربوط خطوط پہ استوار ہے۔


جیسے میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ سیاسی مہریں دراصل قابض کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جدوجہد کررہے ہوتے ہیں ، اسی لیے وقت کے ساتھ ساتھ ان کا اصل چہرہ عوام کے سانے ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے ۔ اب ذرا ان ہی جماعتوں کے رہنمائوں کے ماضی اور حالیہ دور کے بیانا ت کا تقابلی جائزہ لیں تو بہت کچھ عیاں ہوتا ہے کہ کبھی وہ عوام کو آزادی کا سلوگن تھمادیتے تو کبھی صوبائی خودمختاری کو مقصد ِ حیات بناکے پیش کرتے ، بسا اوقات تو ضرب عضب کی بات کرنے سے بھی نہیں کتراتے ، کبھی نالی ، سڑک اور ٹھیکے وغیرہ سے ان کی بات آگے نہیں برھتی۔ کبھی وہ ان ایوانوں میں جانے کے لیے انتہائی احمقانہ دلائل سامنے لاتے ہیں کہ اگر ہم وہاں نہیں جائیں گے تو وہاں شفیق مینگل ، سرفراز ، اور نہ جانے جانے کیسے کیسے لوگ براجمان ہوں گے، اور اگر ہم وہاں نہیں جائیں گے توبلوچستان کی بات کرنے والا کون ہوگا۔ کم ا زکم ہم وہاں بلوچ اور بلوچستان کی بات تو کررہے ہیں اور اگر ہم نہیں ہوں گے تو ہمارا زیادہ استحصال ہوگا۔


اب ذرا نظر دوڑائیے جب سے انہوں نے اقتدار سنبھالا ہے اس کے بعد 95ء میں کوسٹل ہاوے بننا شروع ہوا یعنی گوادر کا سودا، 98ء میں صاحبوں نے ڈرائیونگ سیٹ تک سنبھالا اور راسکوہ راکھ کا ڈھیر بن گیا جہاں آج بھی لوگ کینسر کے مرض سے مرے جارے ہیں، لیکن ایٹمی تابکاری کے عالمی قوانین کے ہوتے ہیں بھی انہوں نے قوم کو مرنے سے بچانے کی جدوجہد نہیں کی، ازاں بعد آسٹریلیا، سنگاپور اور پھر چائنا سے ڈیل ہوتی ہے وہ بھی انہی کے ہوتے ہوئے، پر مجال کہ کوئی چپ کا روزہ توڑ نے کی جسارت کرسکے، کچھی کینال کی حالت سب کے سامنے ہے، چمالنگ کی بولی کیسے لگی ہم سب جانتے ہیں، قلات اور اس کے مضافات سے وسائل لوٹا جارہا ہے کیسے وہ بھی ہم جانتے ہیں، نال، وڈھ ، ونگو ، دلدبند، چہتر کا سودا کیسے ہوا اور کون بیٹھا تھا ان ایوانوں میں یہ بھی سب جانتے ہیں۔ یہ تو وسائل کی بات ہورہی ہے جن کی حفاظت تو درکنار ان کے سودا میں یہ شریک کار ہیں۔ اب ذرا آتے ہیں جبری طور پرلاپتہ ہونے والے بلوچ فرزندوں کی طرف۔کتنے ہیں کوئی نہیں جانتا لیکن ماما قدیر جو کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے مسلسل سراپاء احتجاج ہے انہیں کچھ خبر تو ہوگی اور اس کے بقول ان کی تعداد ساٹھ ہزار سے زائد ہے۔جب انہیں اٹھایا جارہا تھا اس وقت کون کون ان ادوار میں ایوانوں کی کرسیوں پہ براجمان تھے۔مسخ شدہ لاشیں جو دس ہزار سے زائد ہیں کس نے ان کی موت کے پروانے پہ دستخط کیے ۔سب جانتے ہیں کیوں کہ ضرب عضب کے لیے بولنے والے بھی عوام کے سامنے ننگے ہوچکے ہیں ۔ بیس سالوں سے ماں بہنیں سڑکوں پہ سراپا احتجاج ہیں کہاں گیا غیرتِ بلوچی۔


ظلم کے قصے جب ہرکوچہ و گدان تک پہنچ گئے ، عوام سراپا احتجاج ہوا ،کہ وفاق کے دلدادوں اب برداشت نہیں ہوگا ۔کیوں کہ اب لگتا ہی نہیں کہ تم لوگ راہ ِ راست پہ آجائو ۔تم لوگوں کا نظریہ تو فقط نالی اور سڑک کی محدود ہوکے رہ گیا ہے کہ بس وہی بنوانا ہے۔ لیکن ایک حقیقی سیاسی جماعت وہ ہوتا ہے جو عوام کو خوابِ غفلت سے بیدار کرے ، جو انہیں بتائے کہ تم کون ہو ، تمہاری ذمہ داریاں کیاہیں ، تمہارے حقوق کہاں غضب ہورہے ہیں اور انہیں حاصل کرنے کے لیے تمہیں کرنا کیا ہوگا۔ 


نوآبادیاتی سماج میں جب حقیقی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو اسی سماج سے جہاں آزادی کے متوالوں نے پہلی اینٹ رکھی ہوتی ہے وہاں سے ایسے ایسے رہنما ئوں کا جنم ہوتا ہے جن کے بارے سوچنا بھی محال ۔دراصل آنے والے دنوں میں وہی قوم کے حقیقی نمائندے ہوں گے ، وہی ہوں گے جو قوم کو منزل تک پہنچائیں گے۔ یقین مانو ! ان غیور دردمند افراد کے کارناموں سے نہ صرف نام نہام قوم پرست بلکہ ان کے آقائوں کا دماغ بھی مفلوج ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ آگے کرنا کیا ہے اسی لیے کبھی وہ اپنے ڈیتھ سکواڈ کے ذریعے دہشت کا ماحول پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ، کبھی اپنی فورسز کی طرف سے، کبھی اپنے کٹھ پتلیوں کو اکسا کر ۔اس ایسے حالات میںریاستی مہروں کے دماغ کے پرزے بھی ڈھیلے پڑجاتے ہیں اسی لیے ان کے بیانات انتہائی مضحکہ خیز انداز میں سامنے آ تے ہیں۔ شکر ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں کسی نے کچھ کہا تو لمحوں میں پوری دنیا میں اس کی بات سے ہر بشر کو آگہی ملتی ہے۔ اور ہاں جب حالات اس نہج پہ پہنچ جائیں تو آباد کار کے ساتھ ساتھ ان کے ایوانوں کے دلدادہ بھی قوم کے دانشوروں کو بھی جو عوام کو حقائق سے روشناس کراتے ہیں معاف نہیں کرتے ۔جب ہر چیز ان کے کنٹرول سے باہر ہوتا ہے کبھی اپنے زرخرید صحافیوں کے ذریعے تحریک کی پذیرائی روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ، تو کبھی چرسی، موالیوں کو سول سوسائٹی کے کارکنان ظاہر کرکے ۔اور دماغ جب مکمل مفلوج ہو تو ریاستی اہلکار سپیکر تک چوری کرنے سے باز نہیںآتے۔ قابض کی ایسی حرکتیں دراصل محکوموں کی فتح کی نوید ہوتی ہے۔