تربت ( نمائندہ خصوصی ) : جبری لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے کیچ میں ڈی بلوچ کے مقام پر جاری لواحقین کا دھرنا دس روز کے احتجاج کے بعد مقامی پولیس سربراہ کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں چھ جبری لاپتہ نوجوانوں کی ایک ہفتے کے اندر بازیابی کی شرط پر ختم کردیا گیا۔
ذرائع کے مطابق ایک جبری لاپتہ نوجوان ’عدیل والد اقبال‘ کو رہا کر کے لواحقین کے حوالے کیا گیا ہے جو کہ 8 مارچ 2023 سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ تھا۔جبکہ ایک جبری لاپتہ نوجوان کی گرفتاری پنجگور سے ظاہر کی گئی ہے ، تاحال ان کا نام معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
لواحقین نے کہا ہے کہ اگر ایک ہفتے کے اندر ان کے بچے بازیاب نہیں ہوئے تو وہ دوبارہ زیادہ شدت کے ساتھ احتجاج کریں گے۔
احتجاجی دھرنے کی سربراہی کرنے والے بلوچستان سول سوسائٹی کے چیئرمین گلزار دوست بلوچ نے ٹویٹر پر اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اور انتظامیہ کے درمیان کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں تربت ڈی بلوچ دھرنا دس دن بعد ختم کردیا گیا۔تاہم انھوں نے مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔
دھرنے میں موجود ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ ایس ایس پی ضیاء مندوخیل نے انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کیے اور لواحقین کو یقین دہانی کروائی کہ گرفتار نوجوانوں کو ایک ہفتے کے اندر منظر عام پر لایا جائے گا۔
پولیس کی طرف سے وعدہ کیا گیا ہے کہ دو نوجوانوں کی گرفتاری کل ظاہر کی جائے گی جبکہ باقی نوجوانوں کی بازیابی ہفتے کے اندر عمل میں آئے گی۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ جبری لاپتہ نوجوانوں کی گرفتاری سی ٹی ڈی کی طرف سے ظاہر کی جائے گی اور ان پر باقاعدہ ایف آئی آر درج کیا جائے گا۔
کیچ میں ڈی بلوچ پر سات جبری لاپتہ نوجوان کے لواحقین نے گذشتہ دس دنوں سے احتجاجی دھرنا دے رکھا تھا۔ یہ نوجوان عابد ولد وشدل ، جبری گمشدگی کی تاریخ : 21 مارچ 2023 ، عدیل ولد اقبال ، جبری گمشدگی کی تاریخ : 8 مارچ 2023 ، ظریف احمد ولد محمد بخش ، جبری گمشدگی کی تاریخ : 9 اگست 2023 ، شعیب لیاقت ولد لیاقت ، جبری گمشدگی کی تاریخ : 9 اپریل 2023 ، جہانزیب فضل ولد فضل کریم ، جبری گمشدگی کی تاریخ 21 مارچ 2023 ، حماد نذید ولد نذیر احمد ، جبری گمشدگی کی تاریخ : 9 اپریل 2023 اور یاسر نجام ولد نجام ، جبری گمشدگی کی تاریخ :26 ستمبر 2023 ، ہیں۔
بلوچستان میں جبری گمشدگی کو پاکستانی فوج بلوچ قوم کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ان نوجوانوں کو جبری لاپتہ کیا جاتا ہے جو بلوچ قومی شناخت کے حوالے سے مثبت خیالات رکھتے ہیں یا سماج میں مثبت سرگرمیوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
تربت سول سوسائٹی کے ایک نمائندے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی فوج ہوشیاری اور چالاکی سے بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہی ہے اور بلوچ قوم کی اہل نوجوان نسل کو جبری گمشدگیوں کے ذریعے تباہ کر رہی ہے۔وہ ڈیتھ اسکواڈ ، سی ڈی ، مقامی انتظامیہ اور پارلیمانی سیاستدانوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے جرائم کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ ایک کھلا راز ہے کہ جبری گمشدگیوں کی ذمہ دار صرف اور صرف پاکستانی فوج ہے۔
انھوں نے حالیہ مذاکرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا پولیس نے جو مذاکرات کیے ہیں وہ نہیں چاہتی کہ اس کی تفصیلات میڈیا پر آئیں بلکہ ایک طرح سے دھمکی دی گئی ہے کہ اس خبر کی میڈیا پر آنے کے منفی نتائج ہوسکتے ہیں۔ اور دوسری تشویشناک بات یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو تشدد کے بعد بھی رہا نہیں کیا جائے گا بلکہ جھوٹے مقدمات میں کیچ سے باہر ان کی گرفتاری ظاہر کی جائے گی جس سے لواحقین اور متاثرہ نوجوان کے مشکلات کے ایک نئے اور طویل دور کا آغاز ہوگا۔
انھوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف ایک اتنا بڑا جرم اور پوری بلوچ قوم کے لیے اتنا بڑا مسئلہ ہے اس کے علاوہ پاکستانی فوج کی انسانی حقوق کی دیگر پامالیاں نظر نہیں آتیں۔ہم ان پر بات ہی نہیں کرتے ، جن میں ایک جھوٹے مقدمات کے ذریعے کثیر تعداد میں نوجوانوں کی گرفتاریاں ہیں۔ایسے کیسز ہیں کہ گوادر میں گرفتار کیے گئے نوجوانوں کو طویل عرصے تک جبری لاپتہ کیا گیا۔ جبری لاپتہ کرنے والے افسران لواحقین سے بازیاب کے عوض پیسے اور زمینیں مانگتے رہے ، نہ ملنے پر طویل عرصے کے بعد پشین میں بم دھماکے میں ملوث کرکے سی ٹی ڈی نے ان کی گرفتاریاں ظاہر کیں۔ عدالت سے انھیں سزائیں دلوائی گئیں جو گذشتہ پانچ سال سے جرم ناکردہ میں قید ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ یہاں سے گرفتار کیے گئے نوجوانوں کی گرفتاری کسی دوسرے علاقے میں، کسی جھوٹے مقدمے میں ظاہر کی جائے گی اور اس ظالمانہ شرط کو قبول کرتے ہوئے لواحقین نے احتجاج ختم کیا ہے۔ آپ اس سے لواحقین کی بے بسی کا اندازہ لگائیں کہ وہ اس پر بھی راضی ہیں کہ ان کے جبری گمشدہ عزیزوں کو کہیں بھی کسی بھی مقدمے میں ملوث کرکے بازیاب کیا جائے ، جبری گمشدہ نہ رکھا جائے۔جعلی مقابلوں میں قتل نہ کیا جائے اور مسخ لاش نہ پھینکی جائے۔