شال بلوچ جبری لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4984 دن ہوگئے ہیں۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے چیئرمین مقبول بلوچ، صمند بلوچ اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے آکر یکجہتی کی
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ظالم حاکم محکوم قابض و مقبوض کے درمیان جنگ کے واقعات سے بھری دنیا کی تاریخ میں طاقتور اور ذور آور اقوام کا کمزور اور زیردست اقوام پر ظلم و جبر اور تشدد نئ بات نہیں. ہمیشہ سے یہ ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی طاقتور قوم اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے کسی کمزور قوم کی آبائ سرزمین پر قبضہ جما کر اسے غلام بناتاہے تو وہ اس قوم کے یر طبقے کے افراد مسواے چند بے ضمیر غداروں کے رکھتے ہوئے باقی سب کو عمر اور جنس سے بالا تر ہوکر اپنا دشمن تصور کر کے تہذیب کے مروجہ اصول اور جنگی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ٹھیک اس طرح بلوچ سرزمین پر قبضہ جمانے کے بعد ریاست پاکستان نے بلوچ قوم کی آواز کو دباکر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے فوجی آپریشن اور ہراستی قتل اور تشدد سمیت ہر قسم کے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے. اپنے قبضے کے ساتھ سے ہی قابض نے بلوچ قوم پر ظلم و جبر کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا تھا جو پوری اب و تاب کے ساتھ ہنوز جاری ہے. 1973 میں سامراجی عطا کردہ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بلوچ گدانوں خاص طور پر کوہستان مری میں پانچ سال تک مسلسل بمباری کرکے خواتین اور بچوں اور پیراں سال بزرگوں سمیت ہزاروں معصوم بلوچوں کو موت کی آغوش میں دھکیل دیا گیا مگر پھر بھی بلوچ قوم کی آواز کو دبا کر اسے چپ کرانے میں یکسر ناکام رہی. 2002 سے شروع پاکستان اور بلوچ قوم کے درمیان موجود جنگ میں بھی ہزاروں بلوچوں کی وحشیانہ بر بریت کا نشانہ بنے ہیں م. قابض ریاست کے سابقہ وزیر داخلہ نے بلوچستان میں رٹ کی بحالی کے لئے اعلان کردیا جس کے بعد بلوچ فرزندووں کی تشدد زدہ لاشیں پھینکنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا.