ہمارا چھوٹا سا گاؤں توتک جہاں خوشی کے گیت گائے جاتے تھے 18 فروری 2011ء کو اسی گیت گانے کی آواز رونے اور چیخنے کی آواز میں تبدیل ہو گئی ۔ میرا بیٹا، میرا باپ، میرا بھائی، یہ واحد آواز تھی جو کانوں میں گونج رہی تھی۔ کیا وجہ ہو سکتا ہے کہ یہ خوبصورت آواز ایک دردناک آواز میں بدل گیا؟ یہ صبح 7:00 بجے کا وقت تھا ۔ اس دن بہت بارش ہو رہی تھی۔ جب میں نے اپنی آنکھیں کھولی، میں نے ارد گرد دیکھا. اُس کمرے میں کوئی بھی نہ تھا اور وہاں پر فائرنگ کی آوازیں گونج رہی تھی۔ اور ہمارے گاؤں کے مسجد سے اعلان کی آواز آ رہی تھی ، وہ کہہ رہے تھے کہ گاؤں کے سب لوگ اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دیں۔ جب میں اپنے خاندان کو ڈھونڈنے کے لیے کمرے سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ ہر کوئی ایک کمرے میں سھما اور بہت خوفزدہ ہے ۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کوئی بھی جواب نہیں دے رہا تھا اور ماں نے کہا کہ آؤ اور یہاں بیٹھ جاؤ. فائرنگ بغیر رکے ہمارے گھر کی طرف مسلسل ہور ہاتھا۔ اس لمحے کسی نے ہمارے گھر کا دروازہ کو زور سے دھکا دیا اور سات سے آٹھ بندوق بردار افراد داخل ہوگئے ۔ جیسے ہی وہ پہنچے انہوں نے میرے خاندان سے کچھ سوالات پوچھے اور انہوں نے ہمارے گھر کی تلاشی شروع کر دی اور ان میں سے ایک شخص نے میری ماں سے چیختے ہوئے کہا کہ اپنے بچوں کے ساتھ یہ گھر چھوڑیں اور اس وقت ہم بہت خوفزدہ اور بہت پریشان تھے۔ ہم گھر سے باہر نکل گئے تو بہت سے اور مسلح افراد باہر کھڑے تھے۔ اس وقت ہم مایوس اور بے بسی کے عالم میں اپنے رشتہ داروں کے گھر گئے، وہ لوگ بھی بہت خوفزدہ تھے ۔ کچھ لمحوں میں مسلح افراد جوکہ فورسز کے ساتھ تھے نے ہمارے گھر کو آگ لگا دی اور وہاں سے چلے گئے ۔ مگر انہوں نے تقریباً 30 سے 40 افراد کو حراست میں لیکر چلے گئے ، جوکہ ہمارے چچا، دادا اور ہمارے رشتہ دار تھے۔ دوسری طرف گاوں میں ہمارے بہت سے زمینیں کاشت کی تھیں میرے چچا نعیم بلوچ اور یحی بلوچ جو بی ایس او آزاد کے رکن تھے اُس رات وہ دونوں وہاں کھیتوں کی حفاظت کے لیے سو گئے تھے وہاں دونوں کو بغیر کسی وجہ کے پاکستانی فورسز نے شہید کردیا۔ جن لوگوں کو لے جایا گیا ان میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن ہمارے خاندان کے 16 افراد جن میں 80 سالہ محمد رحیم خان بلوچ جوکہ کھیت میں شہید ہونے والے نعیم بلوچ کے باپ ہیں اپنے دیگر 15 پوتوں سمیت اب تک لاپتہ ہیں.