ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

سبدان حملے کے بعد گذشتہ تین ہفتے سے وسیع علاقے میں فوج کشی-خصوصی رپورٹ

سبدان حملے کے بعد گذشتہ تین ہفتے سے وسیع علاقے میں فوج کشی-خصوصی رپورٹ

FEB

18
18 / 02 / 2022 رپورٹ

تربت: بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ضلع کیچ میں سبدان کے مقام پر پاکستانی فوج کے کیمپ پر حملے کے بعد ضلع کیچ سمیت ، ضلع پنجگور اور ضلع گوادر میں پاکستانی فوج کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔


سبدان حملے کے بعد 2 فروری کو بلوچ لبریشن آرمی کی مجیدبریگیڈ کے پنجگور اور نوشکے میں پاکستانی فوج پر فدائی حملے ہوئے جنھوں نے پاکستانی فوج کو مورال کو بری طرح متاثر کیا اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے پاکستانی فوج نے اپنی کارروائیوں میں مزید شدت پیدا کی ہے۔


تازہ رپورٹ کے مطابق ایران کے زیر انتظام مغربی بلوچستان سے متصل اضلاع کیچ، گوادر، پنجگور، واشک اور خاران میں بڑی تعداد میں ایف سی اور ریگولر آرمی کے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔


« مزن بند کے اطراف وسیع علاقے میں چار لاپتہ فوجی اہلکاروں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن»


ذرائع نے بتایا ہے کہ 25 جنوری کو سبدان میں پاکستانی فوج کے کیمپ پر بی ایل ایف کے حملے کے بعد سے لے کر اب تک ایک وسیع علاقے میں پاکستانی فوج موجود ہے اور فضاء میں روزانہ کئی جنگی ہیلی کاپٹرز پرواز کر رہے ہیں۔مزن بند کے پہاڑوں میں فوجی کماندوز اتارے گئے ہیں جب کہ راستوں پر فوجی گشت کے علاوہ ، ناکے بندیاں کی گئی ہیں۔


ایک باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ اس حملے میں پاکستانی فوج کے ریگولر دستے کے 13 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے اور صرف ایک فوجی ہتھیار پھینکنے کے بعد سرمچاروں کو چکمہ دیکھ کر بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا جسے سرمچاروں نے ہتھیار پھینکنے کی وجہ سے ہلاک نہیں کیا۔ اس حملے کے بعد مدد کو آنے والے فوجی دستوں پر بھی سرمچاروں نے حملہ کیا تھا جس سے مزید 14 فوجی ہلاک ہوئے ۔


ذرائع کے مطابق اس حملے میں پاکستانی فوج کے 27 اہلکار ہلاک ہوئے تھے جبکہ 4 فوجی اہلکار تاحال لاپتہ ہیں۔


ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ ان علاقوں میں لگ بھگ ایک مہینے سے جاری شدید فوجی کارروائی ان چار فوجی اہلکاروں کی تلاش کے لیے کیا جا رہا ہے جن کے بارے میں فوج سمجھتی ہے کہ وہ بلوچ سرمچاروں کی حراست میں ہیں لیکن بی ایل ایف نے اس حوالے سے اپنے بیان میں صرف 17 اہلکاروں کی ہلاکت کی ہی دعوی کیا ہے اور قیدیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔


اس حملے میں بی ایل ایف نے فوجی چیک پوسٹ کو مکمل تباہ کرنے کے بعد فوج کے ہتھیار قبضے میں لیے تھے۔


پاکستان کے عسکری ذرائع نے میڈیا کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مغربی بلوچستان کی سرحدی پٹی پر تمپ ، مند اور دشت کے پہاڑی علاقوں میں فوج کشی کی جا رہی ہے۔


«پاکستانی فوج چاہتی ہے کہ بلوچ سرمچاروں کو سختی سے کچلا جائے اور ٹی ٹی پی سے مفاہمت ہو»


پاکستانی فوج کو غلط فہمی کی تھی افغانستان پر طالبان کی حکومت میں آنے کے بعد بلوچ سرمچاروں کے حملے ختم ہوجائیں گے لیکن افغانستان طالبان حکومت کے قیام کے باوجود نہ صرف بلوچ سرمچاروں کے حملوں کی شدت برقرار ہے بلکہ تحریک طالبان پاکستان بھی اسی شدت کے ساتھ پاکستانی فوج کے خلاف لڑ رہی ہے۔


تاہم بلوچ سرمچاروں کے برخلاف پاکستانی فوج اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان افغان طالبان کی معاونت سے ایک مہینے تک جنگ بندی کا معاہدہ بھی ہوا تھا۔


جمعہ کے روز ایک ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور پاکستانی فوج کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری ہے اور جلد ہی دوبارہ جنگ بندی متوقع ہے۔ رواں ہفتے طالبان کے حملوں میں بھی کمی دیکھی جا رہی تھی لیکن آج (جمعے کے روز ) شمالی وزیرستان کی تحصیل سپین وام میں طالبان نے ایف سی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔


رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹی ٹی پی کے حملوں کے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستانی ان علاقوں میں انٹلی جنس بنیاد پر اپنے مخالفین کے خلاف منظم حملے کی منصوبہ بندی کرچکی ہے جن کا مقصد اس ناہموار علاقے کو حکومت پاکستان کے کنٹرول میں لانا، باڑ کے ساتھ سرحد کی حد بندی کرنا اور سخت بارڈر کنٹرول سسٹم کے مطابق یہاں سے آنے جانے والوں کو پابند کرنا ہے۔


شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور پاکستانی اہلکار نے رائٹرز بتایا کہ باغیوں اور عسکریت پسندوں سمیت ہم ان ’تمام عناصر‘ کو نشانہ بنارہے ہیں جو خطرہ ہیں۔


پاکستان کی عسکری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج ٹی ٹی پی کے ساتھ سردست زور آزمائی کی بجائے بلوچ آزادی پسندوں پر اپنی مکمل توجہ مرکوز رکھنا چاہتی ہے جو کہ پاکستانی فوج پر بڑے حملے کر رہے ہیں۔


ٹی ٹی پی بھی اپنی قوت کو مجمتع کرنے اور افغانستان کے حالات کے مستحکم ہونے تک اس فرصت سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اس لیے دونوں طاقتیں ایک دوسرے سے مذاکرات میں دلچسپی رکھتی ہیں لیکن پاکستان ، طالبان اور افغانستان کے درمیان ان معاملات کا پاکستان کے حق میں مستقل بنیادوں پر طے ہونا مشکل ہے۔ کئی ایسے مسائل بیک وقت موجود ہیں جس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوج کسی بھی عسکری کامیابی کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتی اس لیے بلوچ سرمچاروں کی بہترین حکمت عملی اس دوران اپنے جانی نقصان کو کم سے کم رکھنا ہی ہوسکتا ہے۔


ذریعہ: اسٹاف رپورٹر | تصویر: زرمبش