بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5054 دن ہوگے۔ اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں نیشنل پارٹی کے سابقہ ضلعی صدر حاجی نیاز محمد لانگو، میر عبدالغفار قمبرانی نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔ اس موقع پر وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز تنظیم وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انسان ایک ہدف متعین کرکے حصول کی کوشش میں تن من دھن کی بازی لگا دیتا ہے اور خاص طور پر جب یقین ہوجاتا ہے کہ وہ جس ہدف کے حصول کے لیے کو شان ہے اگر اس کے جذبے ہمت لگن کی راہ رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ پھر اپنے مقصد کے حصول کے لگانے سے بھی چنداں دریغ نہیں کرتا ہے خواہ اس کی راہ میں کوئی مظبوط چٹان کو چکنا چور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ 1948 سے لیکر بلوچستان کے جبری الحاق تک اور تب سے لیکر اب خواہ وہ مقتد رہ ہو یا جہموریت کے دعواے دار سب کی ملی بھگت حیل حجت اور ساز شوں سے بلوچوں کو نشانہ بنانے کی روش جاری ہے۔ ریاست اپنے بچاو اور تحفظ کے لئے ہمیشہ اس دھرتی کا استعمال کیا وہ راسکوہ کے کہساروں پر نیوکلئیر دھماکہ کی شکل میں ہوں یا بڑے پیمانے پر فوجی چھاونیوں کی شکل صورت میں لیکن ان کے عوض میں انہیں کیا ملا ظلم بربریت نت نئی سزائیں گونتانا موبے اور ابو غریب کے زندانوں جیسا جگہ جہاں غیر مذہب قوم کے حلقہ ارادات کا قانون پر پا ہے ، لیکن ایک اسلامی ریاست میں ان سے بھی بدتر عقوبت خانے زندانوں میں تیار کئے گئے ہیں جہاں پر نئی ایجاد دات نئی اذیتیں گونتانا موبے اور ابو غریب کی کال کوٹھڑیوں پر سبقت لے جاتی ہیں جو قوم 75 سالوں سالوں سے محکومی کی زندگی بسر کر رہی ہے جیسے آج تک ریاست نے قوم تسلیم کرنا تو در کنا ر انسانیت کے مساوی حقوق دنیا بھی گوارا نہیں کیا ۔ باقی بچی کچھی امیدیں عدلیہ کی آزادی مرکوز تھیں وہ کار اضافہ بھی سرانجام ہوچکا کہ آزاد عدلیہ کا قیام ممکن ہوسکا کہ عدل انصاف فیصلے بنا کسی ہچکچاہٹ کے سنائے جائیں گے۔