بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کے نمائندے ریاض سہیل سے آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کے انضمام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قابض قوتوں سے نجات اور قومی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ بلوچ سیاسی و عسکری قوتوں کو مضبوط کر کے انھیں دشمن کے خلاف مزید مشترکہ و موثر جدوجہد کی جانب موڑ دیا جائے۔‘ انھوں نے کہاہےکہ ’جدوجہد آزادی میں فکر و عمل سب سے بڑھ کر ہے جسے نوجوان اپنے شعوری کردار اور قربانیوں سے واضح کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ یہ بات کسی بھی ذی شعور بلوچ سے ڈھکی چھپی نہیں بس اگر ضرورت ہے تو وہ یہ کہ ہر ایک شخص، ادارہ، گروہ نیک نیتی اور ایمانداری سے خود فیصلہ کر کے آگے بڑھے، تاکہ ایک لفاظی و کاغذی اور صرف دعویداری سے ہٹ کر عملاً نظم و ضبط اور شعوری بنیادوں پر قومی قوت کی تشکیل ممکن ہوسکے۔‘ انضمام کی صورت میں لیڈرشپ سپردگی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہاہے کہ بلوچ قومی تحریک میں ہمیشہ ہی مشترکہ لیڈرشپ نے تحریک کی باگ دوڑ سنبھالی ہے، جس کی روشنی میں ان کے لیے یہ فیصلہ کوئی بڑا اور پیچیدہ معاملہ نہیں ہو گا کہ کس طرح لیڈرشپ کا تعین کیا جاسکے گا۔ یقیناً باہمی تعاون اور مشورہ سے یہ نقطہ حل ہو گا۔‘ انھوں نے کہاہے کہ بلوچ قومی تحریک برائے آزادی کی جدوجہد کو عملی جامعہ پہنانے اور ایک آزاد اور خوشحال بلوچستان کی خاطر مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے والی تنظیم یا جماعت کا نام جو بھی ہو وہ بلوچ قوم قبول کرے گی۔ ان سے پوچھا گیا کہ انضمام کے بعد کیا فدائی حملے بند ہونگے؟ تو اس نے کہاکہ فدائین بلوچ قوم کے عظیم قومی ہیرو اور قومی سرمایہ ہیں، بلوچ قوم انھیں اپنا نجات دہندہ اور امید سمجھتی ہے، اسی لیے آج ایک بڑی تعداد میں بلوچ مرد اور خواتین عملاً مجید بریگیڈ کا حصہ بن چُکے ہیں۔ ’فدائین حملے بلوچستان کی مکمل آزادی تک مزید جدت و شدت سے جاری رہیں گے۔