ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

ماہ ستمبر میں بلوچستان سے 30 افراد کو جبری لاپتہ کیا۔ پانک

ماہ ستمبر میں بلوچستان سے 30 افراد کو جبری لاپتہ کیا۔ پانک

OCT

04
04 / 10 / 2022 پانک

ماہ ستمبر میں پاکستانی فورسز نے30افرادکو جبری لاپتہ کیا ، ماہ ستمبر اور اس سے قبل جبری لاپتہ افراد میں 19 کو شدید زہنی اور جسمانی تشدد کرکے رہا کردیا گیا جبکہ ماہ ستمبر میں جبری لاپتہ افراد میں 11تاحال لاپتہ ہیں، جبکہ 2نوجوانوں کو ریاستی مسلح جھتوں نے قتل کیا۔


بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ شدت کے ساتھی جاری ہے۔ستمبر 2022 میں بھی پاکستانی خفیہ اداروں اور ان سے منسلک سی ٹی دی کی کاروائیوں نے عام افراد کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھا۔جبری گمشدگی جو بلوچستان میں انسانی المیے کی شکل کرچکی ہے،جس سے بلوچستان کا ہر خاندان متاثر ہے۔ماہ ستمبر میں بھی جبری گمشدگی کے سلسلے میں کمی آنے کے بجائے اضافہ دیکھا گیا۔بلوچستان آج سے نہیں بلکہ گذشتہ دو دہائیوں سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہے جس سے براہ راست پاکستانی فوج ملوث ہے۔حال ہی میں پاکستان کے وزیر داخلہ،وزیر قانون اور مقتدرہ حلقوں نے ہرنائی واقعے کے خلاف جاری احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرکے جبری گمشدگی سے متاثرہ لواحقین سے ملاقات میں بھی یقین دہانی کروائی کہ وہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو جعلی مقابلے میں قتل نہیں کریں گے جو اس بات کا اعتراف ہے کہ لاپتہ افراد پاکستانی اداروں کے پاس قید ہے۔لاپتہ افراد کمیشن،عدالتی کاروائیاں،وزیر داخلہ اور وزیر قانون کی یقین دہانی کےباوجود لاپتہ افراد بازیاب ہونے کے بجائے دیگر افراد کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے۔


جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین نے پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق اپنی پر امن جدوجہد کے ذریعے اپنی آواز متعلقہ اداروں تک پہنچائی لیکن آئین و قانون کا راگ الاپنے والے اداروں نے کھبی اس مسلئے کو سنجیدگی سے نہیں لیا،جو اس بات کا عین ثبوت ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے بلوچستان میں ہونے والی جبری گمشدگی،حراستی قتل اور جعلی مقابلوں میں شریک جرم ہے۔


یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں سول انتظامیہ اور جمہوریت نام کی کوئی شے موجود نہیں رکھتا،بلوچستان براہ راست پاکستانی فوج کے زیر انتطام ہے،باقی تمام ادارے اور کٹھ پتلی حکومت فوج کےتابع فرمان ہے۔پاکستانی فوج بلوچستان آئین و قانون سمیت عالمی قوانین کو روندتے ہوئے جبری گمشدگی کےسنگین جرم کا مرتکب ہورہی ہے ۔ بلوچ قوم کی مسلسل چیخ و پکار کے باوجود زمہ دار عالمی ادارے ابھی انسانیت کے خلاف ان جرائم کی سدباب کے لیئے عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہیں ،جس کی وجہ سے انسانی بحران مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے،


اس انسانی بحران نے بلوچستان کے عوام کو ذہنی طور پر کافی متاثر کیا ہے ،نفیساتی مسائل بڑھ رہے ہیں ،جس کی وجہ سے خود کشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔اگر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں یونہی جاری رہیں اور اس کے انسداد کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو بلوچستان ایک ایسا منظر نامہ پیش کریگا جو خطے میں ایک ایسی صورتحال کو جنم دے گا جو خطے کے امن کے لئے نقصان دہ عمل ہوگا جسکی ذمہ داری ان طاقتوں پر ہوگی جو بلوچستان پر ہونے والے مظالم پر آگاہ ہونے کے باوجود اپنے چپ کے روزے کو نہ توڑ سکے۔