ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

شهید میجر پیرک کی نظریہ ، حوصلہ، بہادری، سیاسی جد جُہد، اور مزاحمت" تحریر: شاه نظر بلوچ

شهید میجر پیرک کی نظریہ ، حوصلہ، بہادری،  سیاسی جد جُہد، اور مزاحمت"  تحریر: شاه نظر بلوچ

MAR

10
10 / 03 / 2023 مضامین

ہم ایسی شخصیات کی زندگیوں اور طرز ہائے قیادت پر مختصر سی نظر ڈالیں گے جنہوں نے لیڈرشپ سیاسی جدوجہد اور جنگی محاذ کے میدان میں نئی تاریخ رقم کی اور اپنے عہد کا عنوان بن گئے۔ اس کا آغاز ہم اس مبارک ہستی کے نام سے کر رہے ہیں جسے بلاشبہ تاریخ میں اس نام سے جانا جاتا ہے۔ میجر نورا عرفے پیرک ۔ جن سے لیڈرشپ کی توقع رکھی جاتی ہے، ان کا اس عمل سے گزرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسا کرنا اور ہونا عین ممکن ہے۔ اس کی بنیادی ضرورت ’’تعلیم ‘‘ ہے جس کا آغاز پڑھنے، لکھنے اور بولنے (یعنی اظہارِ خیال) سے ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے ایک تعلیم دوست انسان اور آخر میں گوریلا کمانڈر اور ایک نیڈر لیڈر جو آج تک کئی لوگ اس کے اظہار خیال سے آگے بڑھ رہے ہیں، ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے اس نے تعلیم کو اپنا بنیادی مقصد رکھا۔ تعلیم انسانوں کا اثاثہ اور ان کا بنیادی حق ہے۔ اسے تباہ نہیں کرنا چاہئے اور اسے حاصل کرنا فرض ہے ۔ وہ ہر وقت اپنے دوست اور سنگت جو محاذ میں ان کے ساتھی تھے ہر ایک کو استاد کی طرح درس دیتے ان کو ان کے ساتھ ایک دوستانہ ماحول میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ان کو تعلیم سے آگاہی اور جنگی حربہ استعمال کرنے دوشمن سے نمٹنے کا طریقہ جو اس نے جنگی محاذ میں اپنے مہارت سے سیکھا تھا اپنے دوستوں کو ان سے آگاہ کرتے۔ لہٰذا ایک لیڈر کی شخصی تعمیر کے لئے تعلیم یعنی علم کا حاصل کرنا لازم ہے۔ علم کا مطلب ہے بنیادی تعلیم، تجربہ اور مشاہدہ۔ اپنی پہچان بنانے کے لئے علم کا اظہار کرنا ضروری ہے اور اظہارِ علم، توسیع علم کا ایک طریقہ بھی ہے۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز اس نے پروم جائیں سے حاصل کیا مزید تعلیم کیلئے اس نے پنجگور کوئٹہ اور پنجاب کے شہر لاہور کا رخ کیا ۔ مگر دشمن کو اس بات کا گورا نہیں ہوا کہ ایک بلوچ تعلیم اور شعور یافتہ ہو جائے حتی کہ اس کو ایک مرتبہ لاپتہ کیا گیا ، پنجاب کے شہر لاہور میں اور کمٹمنٹ کے زریعے اسے دوبارا رہا کیا گیا کہ وہ اپنے عزیز اور ہم فکری اور ہم نظریہ دوست ذاکر مجید کے خلاف بیان دے، مگر وہ اپنے نظریے پر فختہ اور ڈٹا رہا ۔ وہاں سے اس نے اپنی سیاسی جدوجہد کو ایک مذاہمتی جدوجہد میں بدل دیا ۔ نورا ایک ایسا لیڈر تھا جو آج تک تاریخ اسے یاد کیا کرتا ہے اس نے اپنا علم اور اپنا سیاسی نظریہ اور قومی سوچ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنازیشن آزاد سے حاصل کیا تھا۔ بی اس او نے اسے سیاست کے ساتھ ساتھ ایک گوریلا کمانڈر بھی بنایا ۔ سیاست کے دوران وہ بی اس او آزاد کا صدر بھی رہا ہے اس کی قابلیت شعور علم کی گہرائی اتنا وسیع بن گیا تھا کہ سیاسی اور قومی شعور نے ایسے ایک مذاحمتی راستہ اختیار کرنا پڑا جو آج تک قابل فخر ہے وہ ہر جگہ اور ہر مقام پر عدل و انصاف کا علمبردار بھی رہا ہے۔ زندگی کے ہرشعبہ ٔ حیات میں حق و صداقت اور سچائی کی طرف رہنمائی بھی کی ہے۔ وہ ظالموں اور شہ زوروں کی حکمرانی کے خلاف تھا۔غریب، پس ماندہ اور کچلے ہوئے افراد کو ستانا اور ان پر ظلم و بربریت حکمران ان کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ اس نے ہمت اور حوصلہ کو آگے رکھ کر ظالموں کے خلاف آواز اٹھاتے اور آخر کار ایک جنگی محاذ پر اپنا کام سر انجام دینا شروع کیا کہ اپنے آنے والے نسل کو ایک اچھی زندگی میسر کرے اور ان کو غلامی کے زنجیروں سے آزاد کرسکے ۔ اس نے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ایک اجتماعی مفاد اور ایک اجتماعی سوچ کو آگے لے جا رہے تھے ان کے پیچھے ایک لشکر جو اسی سوچ اور اسی اظہار خیال سے آگے بڑ رہے تھے کہ دشمن کو حیران اور پریشان کرگئے، جو راستہ اپنایا تھا وہ بڑا غیر ہموار، طویل اور سست ہونے کے باوجود بے حد ٹھوس تھا ،اس کے باوجود اس نے یہ کہٹن راستہ اختیار کیا تھا کہ بلوچ سرزمین کے مالک بلوچ خود ہونگے ۔ بلوچ سرزمین پر دشمن کو کبھی سکون سے رہنے نہ دیا جائے گا۔ نورا نے بلوچستان کے مختلف جگہوں میں اپنا قومی کام سر انجام دیا اور مختلف محاذوں میں دلیری سے مقابلہ کیا اور دشمن کے دلوں میں خوف کو بٹھایا مقابلہ میں کبھی بھی اس نے خوف کو محسوس نہیں کیا، اسے یقین تھا کہ اس کے سپاہی دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے ، اور آخر اس کے سپاہیوں اور اس نے خود جنگی محاذ پر آخر گولی سے دشمن کے ساتھ مقابلہ کیا جو اس نے اپنے نظریہ پر پختہ یقین تھا .