ریڈیو زرمبش *پاکستانی میڈیا اور پاکستانی مقتدراعلیٰ گوادر کو باربار عمان سے خریدنے کی خبر ایک پروپیگنڈے کے طور پر سامنے لاتے ہیں، کہیں اس سے یہ تاثر تو نہیں دیا جارہا کہ گوادر کبھی بلوچوں کی ملکیت ہی نہیں رہا ہے* ؟
ڈاکٹر جلال بلوچ: پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آبادکار وں کے گْر کیا کیا ہوتے ہیں، جب ہم ان کے ہتکھنڈوں کو سمجھ پائیں گے تو ازاں بعد ذہنوں میں موجود ابہامی کیفیت از خود ختم ہوگی۔ اب جب بات گوادر کی ہورہی ہے تو تاریخ کی پہلی کتاب جو ڈھائی ہزارسال قبل لکھی گئی ہے اس میں بھی بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے بلوچوں کو، بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح گوادر میں بھی آباد ظاہر کیا ہے۔ جب تحریری تاریخ کی رو سے آپ ڈھائی ہزار سال قبل اس سرزمین پہ آبادتھے تو آج کیسے اور کیوں کر گوادر آپ کی ملکیت نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی سب سے اہم نقطہ ہے جسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جس وقت گوادر دوبارہ مقبوضہ بلوچستان کا حصہ بنا اس وقت چوں کہ بلوچ ریاست کا وجود پاکستان نے قبضہ کرکے ختم تھا لہذا گوادر کی واپسی کا عمل اس غیر فطری ریاست کے قبضہ کے دور 1958ء میں ممکن ہوا اسی لیے سیاست اور تاریخ سے نابلد لوگ یہ کہتے ہیں کہ گوادر کو پاکستان نے بلوچستان کا حصہ بنایا اور مسقط کو اس کی قیمت ادا کی۔ حقیقت یہ ہے گوادر کے لیے پاکستان نے کوئی قیمت ادا نہیں کی اور نہ ہی پاکستان معاشی طور پہ اتنا مستحکم رہا ہے کہ وہ گوادر کی قیمت ادا کرسکے، بلکہ عمان نے جو تعمیرات و غیرہ کی تھیں ان کی قیمت ادا کی گئی وہ رقم بھی اسماعیلی فرقے کے پرنس علی آغا خان نے ادا کیا تھا۔ اور یہ سارا عمل بھی برطانیہ کی عملداری میں ہوا کیوں کہ اس کے بعد مسقط کے سلطان نے گوادر کے دستاویز برٹش کونسل کے حوالے کیے۔ ازاں بعد گوادر کی منتقلی کے دستخط شدہ یہ دستاویز لندن میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم فیروزخان نون کے حوالے کیے گئے۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ گوادر منتقلی کے لیے برطانیہ کے مسٹر میکملن، مسٹر سلون لائیڈ اور وزیر امور دولت مشترکہ لارڈہوم نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب برطانیہ کی منشا و مرضی سے ہوا کیوں سویت یونین گرم پانیوں پہ نظر رکھا ہوا تھا اور اس خطے میں مغرب کو پاکستان جیسا کوئی اور چوکیدار نظر ہی نہیں آرہا تھا جو ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کریں۔
دیکھا جائے کہ جتنی رقم علی آغا خان نے عمان حکومت کو تعمیرات کی مد میں ادا کیا اس سے زیادہ والیانِ مسقط نے گوادر کی آمدنی سے کھایا اور کمایا یعنی انہوں نے دوگناہ منافع حاصل کیا، ایک تو نصیر خان جنہوں نے انہیں ان کے گزر بسر کے لیے گوادر کی آدھی معیشت دی تھی اور دوسرا انہوں نے علی آغا خان سے گوادر میں کی گئی تعمیرات کی قیمت لیکر۔
اب اگر ہم مسقطی شہزادہ سعید سلطان بن احمد اور بلوچ حاکم نصیر خان کے درمیان گوادر کی حیثیت کو دیکھیں تو تاریخ یہ کہتی ہے کہ 1784ء میں جب نوری نصیرخان بلوچستان کا حاکم تھا۔ اس وقت مسقط میں انتشار برپا ء ہوا تو اس خانہ جنگی کے دور میں مسقط کا ایک شہزادہ سعید سلطان بن احمد بلوچستان میں پناہ گزین ہوا، اور نصیر خان سے امداد کا طالب ہوا۔ اگرچہ میر نصیر خان نے اسے فوجی امداد تو نہیں دی لیکن گوادر کی نصف آمدنی اس کے اخراجات کے لیے اسے دی تاکہ بلوچوں کا مہمان تکلیف کا شکار نہ ہو۔ اس دوران مسقطی شہزادہ بطور مہاجر بلوچوں کا مہمان تھا اور بلوچوں نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ہر ضرورت پوری کی۔
جب انگریزوں نے 1839ء میں بلوچستان پہ حملہ کرکے بلوچ حاکم کو شہید کیا تو ازاں بعد انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران بلوچوں کی آپسی چپقلش بھی(خانا ن اور سرداروں کے درمیان) شروع ہوا تو اس کا فائدہ اٹھا کر انگریزوں نے بلوچستان کو تقسیم کے عمل سے گزارا۔ تقسیم کے اس عمل میں ایرانی حکومت بھی شامل رہا۔ اب ایسے حالات میں عربوں نے بھی بلوچوں کے احسان کا یہ بدلہ دیا کہ انہوں نے نہ صرف گوادر بلکہ چاہ بہار کو بھی اپنی میراث بناڈالا۔ جیسے میں کہہ رہا تھا کہ ان دنوں بلوچستان کے اپنے حالات گھمبیر تھے لہذا انہوں نے عربوں سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ لیکن 1784ء میں مسقطی شہزادے کو پناہ دینا تاریخی حقیقت ہے اور یہ پناہ اس وقت تک تھا جب تک ان کے آپسی مسائل حل نہ ہوں۔لیکن عرب شاطرثابت ہوئے اور بلوچستان کے حالات کا فائدہ اٹھا کر گوادر کو اپنی میراث سمجھنے لگے۔ لیکن برطانوی ایما پر علی آغا خان نے رقم دے کر گوادر کو بلوچستان میں شامل کرکے اس ابہام کو بھی دور کیا کہ گوادرتاریخی طور پر کبھی مسقط کا حصہ رہا ہے۔ اب پنجاب کے حاکمیں لاکھ یہ کہہ دیں کہ گوادر کو ہم نے بلوچستان کا حصہ بنایا ہے لیکن تاریخ کو تو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔
ریڈیو زرمبش: *ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر مورخین بلوچ قوم کو کبھی آرین، کبھی عرب، کبھی کرد، کبھی کلدانی اور کبھی کسی اور نسل سے جوڑتے ہیں، آپ کو نہیں لگتا کہ یہ کنفیوژن کا شکار ہیں*؟
ڈاکٹر جلال بلوچ : جی آپ کی بات درست ہے کہ ہمارے اکثر مورخین نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر بلوچوں کا رشتہ دیگر اقوام یا نسلوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مورخین برطانوی مواد کو لیکر تاریخ نویسی کرتے رہے ہیں اور آج بھی بعض مورخین ان دستاویزات کو مستند خیال کرتے ہیں۔ جیسے میں نے پہلے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ آباد کاروں کے گُر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں ایک تاریخ کا مسخ کرنا بھی شامل ہے تاکہ مقامی افراد تاریخ کی بھول بھلیوں میں سرگرداں رہیں۔ہمیں یہ بات مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ آبادکار جب بھی مقامی افراد کی تاریخ لکھتے ہیں وہ اپنے عسکری مفادات کو مدِ نظر رکھ کرہی قلم کو جنبش دیتے ہیں، جہاں وہ ان کی اصل شناخت کو پسِ پشت ڈال کر انہیں تہذیب سے ناآشنا اور خود کو ان کا دیوتا ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ قبضہ گیر کے اس جال میں ہمارے دانشور بھی آگئے اور یوں برطانوی مواد کی تشہیرو توقیر شروع ہوئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزآباد کار بھی مختلف نظریات لیکر آئیں کسی نے ہمیں تاجک کہا، کسی کلدانی، کسی نے آرین، کسی نے عربوں سے ہمارا رشتہ جوڑ دیا تو کسی نے کردی النسل قراردیا۔ ازاں بعد ہمارے جس دانشور کو جس انگریزجاسوس کا نظریہ بھاگیا اس نے ہمیں اسی سانچے میں ڈالنے کی جتن کی۔ یہاں کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان انگریز لکھاریوں کا علم ِ تاریخ سے دور دور تک کا واسطہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی ماضی میں ہمارے کسی دانشور نے فردوسی، ہیروڈوٹس، ایرین، ابنِ حوقل، یعقوبی اور دیگر قدیم تاریخ نویس اور جغرافیہ دانوں کے تصانیف کھولنے کی ہمت کی اور نہ ہی کسی نے قدیم ٹیلوں (دمب) کے بارے میں سوچا کہ ہم کیوں آج بھی ان ٹیلوں کے قرب و جوار میں نئی بستیاں بسانے کی تگ و دو کرتے ہیں، کسی سوچا تک نہیں کہ ہمارا ان سے رشتہ کیا ہے کہ ہم دس، گیارہ ہزار سالہ آثار سے دور بستی بسانے کا نہیں سوچتے۔ اگر سوچتے تو یقیناً اس نتیجے پہ پہنچ پاتے کہ مہرگڑھ ہمارا، شاہی تمپ ہمارا، کوئٹہ تہذیب کو بسانے والے ہمارے آباؤ اجداد ہی تھے، سکتگیں ڈور کے باسیوں کے اور ہمارا خمیر ایک ہے، شہر روغن میں مدفون لوگوں کا اور ہمارے آج کی نسل کا ڈی این اے ایک ہی ہے، آمری تہذیب کے وارث ہم ہیں الغرض اگر ہمارے دانشور انگریزوں کے مواد سے نکل کر باہر دیکھتے تو وہ ہیرڈوٹس سمیت دیگر قدیم کتب سے ہی استفادہ حاصل کرتے، لیکن انہوں نے ایسا کیا ہی نہیں اسی لیے ہم ایک عرصے تک اپنی تلاش میں سرگرداں رہیں۔ لیکن حالیہ دور میں چند ایک دانشوربالخصوص پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ کی کاوشوں سے جنہوں نے قدیم کتب جو یونانی، عرب اور پرشین علماء کی تصانیف ہیں، استفادہ کیا جس کے بعد ہم اس نتیجے پہ پہنچ چکے ہیں کہ مہرگڑھ کو آباد کرنے والے ہمارے ہی آباء تھے اور ہم انہی کی اولاد ہیں۔لہذا آج یہ بحث ہی ختم ہوگئی ہے کیوں کہ حالیہ تحقیقا ت میں ثابت ہوچکا ہے کہ ہمارا خمیر بلوچ سرزمین سے ہی اٹھایا گیا ہے اور ان قدیم تہذیبوں کے وارث ہم ہی ہیں۔
دوسری بات جو آج تک کی معلومات سے ثابت ہوتا ہے وہ یہ کہ اس خطے میں بلوچوں کی ریاستی زندگی بھی لگ بھگ اٹھائیس سو سال قبل کی ہے، مید جو آج بھی ایک بلوچ قبیلہ ہے، ان کی تشکیل کردہ ریاست (ریاستِ مادستان) کے قیام سے شروع ہوا تھا، ازاں بعد ہیروڈوٹس ہوت اور پرکانیوں کی ریاستوں کے بارے میں نشاندہی کرتا ہے جیسے یوتین یعنی ہوت ریاست کے باشندے اور پارکانین یعنی ریاست پارکانیہ کے باشندے اور یہ دونوں قبائل آج بھی بلوچستان میں انہی ناموں سے آباد ہیں یعنی ہوت اور پرکانڑیں یا پرکانی۔ میرانقطہ نظر یہ ہے کہ اب جو آپ کی قدیم تاریخ سامنے آئی ہے جس میں بلوچ اور بلوچ خطے کا رشتہ ازل سے قائم ہے تو کسی کو اس ابہام کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس خطے میں مہاجر ہیں۔
ریڈیو زرمبش:*تاریخی طور پر ڈیرہ غازی خان اور راجن پور بلوچستان کے حصے ہیں، کیا انہیں پنجاب میں شامل کرکے بلوچوں کو مزید تقسیم کے عمل سے نہیں گزارا گیا۔* ؟
ڈاکٹر جلال بلوچ : جب رندوں نے ڈیرہ جات کا رخ کیا تو اس زمانے میں وہاں ہوت قبیلے کے لوگ نہ صرف آباد تھے بلکہ حکومتی نظام میں ان کا اثر و رسوخ بھی بہت زیادہ تھا، اور یہ علاقہ مغل سلطنت کا حصہ تھا اور ملتان کے والی شاہ حسین لنگا کے زیر اثر تھا۔ اسی لیے جب چاکر خان رند نے ان علاقوں کا رخ کیا تو سہراب خان نے شاہ حسین لنگا سے کہا تھا کہ وہ چاکر کی مدد نہ کریں۔آج بھی ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان سردار سہراب ہوت کے بیٹوں کے ناموں سے منسوب ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ وہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ البتہ اس حوالے سے ہمیں اس حقیقت سے آشنا ہونا ہوگا کہ 1761ء میں پانی پت کی جنگ کے بعد نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان ان علاقوں کی تقسیم کا معاملہ آیا تو نصیر خان جس کے حصے میں لاہور بھی آرہا تھا لیکن انہوں نے واضح طور پر احمد شاہ سے کہا کہ ”وہاں تک بلوچستان ہے جہاں تک بلوچی بولی جاتی ہے۔“ ازاں بعد ڈیرہ جات کے یہ علاقے جن میں ڈیرہ غازی اور راجن پور شامل ہیں بلوچ ریاست یعنی بلوچستان کا حصہ بنے
انگریزی دور شروع ہوا تو ان علاقوں پر پنجاب کے سکھوں نے بھی حملے شروع کیے اور یوں ازاں بعد سنڈیمن کے دور میں بلوچستان کا یہ علاقہ بلوچ ریاست کے حاکمین کو خاطر میں لائے بغیر پنجاب میں شامل کیاگیا۔ یہ چونکہ ایک قدیم علاقہ ہے اور زمانہ قدیم سے یہاں بلوچ آباد چلے آرہے تھے جیسے ہوت یا دودائی اور ازاں بعد دیگر رندی لشکر جس میں مختلف قبائل شامل تھے وہ بھی وہاں آباد ہوگئے تو اس پورے علاقے میں بلوچ ہی آباد تھے اسی لیے نصیر خان نے اس علاقے کو بلوچستان میں شامل کیا۔برطانوی دور میں اس علاقہ کے بلوچوں نے بھی انگریزوں کے خلاف شدید مزاحمت کی، بلوچوں کی اس مزاحمت کو روکنے کے لیے انہوں نے بلوچستان کو تقسیم درتقسیم کا شکار کیا جس میں بلوچستان کا یہ زرعی علاقہ بھی شامل تھا۔ حتی ٰ کہ برطانیہ جب اس خطے سے کوچ کررہا تھا تو اس وقت بھی ڈیرہ جات کے سرداروں نے انہیں تحریری طور پر کہا تھا کہ ہم آزاد بلوچستان میں ہی شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن برطانیہ نے ان کی درخواست رد کردیا۔
ریڈیو زرمبش*آپ نے اپنی کتاب ”عورت اور سماج“ میں بلوچ خواتین خصوصاً مائی بیبو، حانی بلوچ اور گل بی بی کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ موجودہ دور میں بانک کریمہ، شاری بلوچ اور سمیعہ بلوچ کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟ مزید یہ کہ چند ایک افراد ایسے بھی ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ بلوچ روایات میں خواتین کو چار دیواری میں ہی ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں آپ کی رائے کیا ہے۔*؟
ڈاکٹر جلال بلوچ: حانی، مائی بیبو، گل بی بی اور بانک کریمہ کا مختصراً ذکر کتاب میں موجود ہے، البتہ اب بھی اس کتاب میں خلا ء موجود ہے جیسے ”بی بی بانڑی“اور مثلِ ”مائی چاگلی“ ایسے بہت سارے کردار ہیں جن پہ تحریر کرنا ابھی باقی ہے۔ اسی طرح حالیہ دور میں سیما، زرینہ، صبیحہ بلوچ، آمنہ، مہلب سمیت اور بہت سارے نام ہیں جو بلوچوں کی آواز دنیا تک پہنچارہے ہیں اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے بارے میں تحریر کیے بغیر کتاب مکمل نہیں ہوسکتی۔
اگر بات بانک کریمہ، شاری اور سمیعہ کی ہو تو حالیہ دور کے یہ ایسے کردار ہیں جن کے بارے میں جتنا رقم کیا جائے ازاں بعد بھی ان تحریروں میں خلا موجود رہے گی۔ جیسے میں کہہ رہا تھا کہ بانک کریمہ کے بارے میں اس کتاب میں مختصراً کچھ تحریر کیا ہے۔ البتہ بانک کریمہ کے حوالے سے فقط اتنا کہوں گا کہ تحریک میں آج جو ابھار پیدا ہوا ہے اس میں اس ہستی کا کردار سب سے نمایا ں ہے۔ بالخصوص سماج کو روشن خیالی کی جانب لے جانے میں، عورتوں کو متحرک کرنے میں، اداروں کے استحکام کے حوالے سے اور عورتوں کو قومی ذمہ داریاں نبھانے کے حوالے سے اس کی خدمات سب کے سامنے عیاں ہیں۔ چوں کہ شاری اور سمیعہ کی شہادت سے قبل یہ کتاب شائع ہوا، اسی لیے ان کے بارے میں کتاب کی دوسری اشاعت میں ضرور رقم کرنے کی کوشش کروں گا۔ کہ شاری اور سمیعہ نے جو راہ اپنایا،یا مزاحمت کے میدان جس رسم کی بنیاد ڈالی اس کی نظیر بلوچ تاریخ میں نہیں ملتی۔ سمیعہ جس کی قربانی، جس کے خاندان کی قربانی اور ان قربانیوں کے بعد خود کو سنبھالنا اور تحریک کے لیے گرم جوشی سے کام کرنا اور ازاں بعد جب یہ محسوس کیا کہ اب قوم کو نجات دینے کے لیے خود کو امر کرنے کا وقت آں پہنچا ہے تو ثابت قدمی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ہر آنکھ نے دیکھ لیا۔ البتہ اس ضمن میں خصوصی طور پر شاری کی بات کروں گا کہ کیسے ایک ممتا اپنے بچوں کوبخوشی وداع کہتے ہوئے ایک ایسے محاذ چل نکلتی ہے جہاں سے واپسی تو کیا لاش ملنے کی امید بھی نہ ہو۔ ایسا جذبہ بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔اس حوالے سے مرید کا یہ شعر ہی یاد آتا ہے کہ
گمان ان مستی
بیان ان پیشن
وطن اور قوم سے والہانہ عشق کی یہ داستان ہے۔ کہتے ہیں نا کہ وطن روح کی مانند ہوتی ہے اور اگر روح چھن جائے تو جینے کا تصور ممکن نہیں۔شاری کی یہ قربانی دیکھ کر یہ کہنے میں کوئی دورائے نہیں کہ عشقِ وطن نے اسے اس نہج پہ پہنچایا کہ وہ عشق کو سالم رکھنے کے لیے جاں سے گزرگئی۔ یہی وہ ہستیاں ہوتی ہیں جن کے کارناموں سے تاریخ پروان چڑھتی ہے اور بلوچ قوم اور وطن کے لیے جو کردار انہوں نے نبھایا اگر تاریخ سے انہیں حذف کیا جائے تو تاریخ مکمل ہی نہیں ہوگی۔
دوسری بات یہ کہ کیا بلوچ خواتین فقط چادر دیواری میں رہیں۔؟تو میں سمجھتاہوں کہ یہ عمل ہمارے نظریے کے برخلاف ہے۔ کیوں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ (BNM)جس سے میں وابستہ ہوں اس جماعت نے روزِ اول سے اس بات پر زور دیا ہے کہ سماج میں صنفی مساوات کا نظام قائم ہونا چاہیے اور اس کے لیے ہماری جماعت نے انتھک کوششیں بھی کی ہے اسی لیے آپ کو کبھی بھی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ہماری جماعت نے خواتین کے نام سے کوئی الگ ونگ بنا یا ہو، حالانکہ ہمارے ہمسایوں میں یا بلوچستان میں بعض جماعتیں ہیں جن کی الگ سے خواتین ونگ ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں رجعتی سوچ بکثرت پایا جاتا ہے۔ ان کے برعکس ہماری شروع دن سے یہ کوشش رہی ہے اور رہیگی کہ سماجی و سیاسی ترقی کے عمل میں مرد و خواتین بنا صنفی تفریق کردار ادا کریں۔اس سے یہ ہوتا ہے کہ سماج میں صنفی مساوات کا نظام قائم ہوجاتا ہے جہاں کسی بھی شعبے میں اہلیت کا معیار جنس تصور نہیں کیا جائے گا بلکہ لوگ قابلیت کی بنیاد پر سماج میں اعلیٰ مقام پہ ہوں گے۔ویسے عمومی طور پر ہمارا معاشرہ غلامی کے باوجود بھی آس پاس کے دیگر معاشروں کی نسبت روشن خیال ہے مثال جب آپ کسی بلوچ کے در پہ دستگ دو گے اور اگر میں کوئی مرد موجود نہ ہو تو وہاں عورت ہی میزبان بنتی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ ایسی مثالیں آج بعض ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ناپید ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ قوم کی آدھی آبادی کو کیسے اور کیونکر پسِ پشت ڈالا جاسکتا ہے۔ لہذا سیاسی اور سماجی ترقی کے لیے ہر ایک کو روشن خیال بننا ہوگا اس ضمن میں بلوچ رہنماؤں کو زیادہ کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ خواتین زیادہ سے زیادہ تعداد میں تحریک کا حصہ بنیں اور اپنی قومی ذمہ داریاں نبھائیں۔
آخر میں یہ کہوں گا کہ بلوچ خواتین کو بھی اس ضمن میں مزید جدوجہد کرنی پڑے گی اور اس کے لیے وہ اس وقت تیار ہوں گی جب انہیں سیاسی جانکاری حاصل ہو۔ جب آپ کسی عمل کی قدر و منزلت سے آشنا ہوں تو اس عمل میں شمولیت اور رہنماہانہ کردار ادا کرنے سے تمہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ان کی شمولیت کے بعد ہی مستقبل میں ہم ایک روشن خیال، سکیولر اور ڈیموکریٹک بلوچستان بنا نے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ لہذا ترقی یافتہ بلوچستان کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے انہیں بانک کریمہ بننا ہوگا، ماہ رنگ و صبیحہ، سمی و زرینہ بننا ہوگا، انہیں کردار ادا کرنا ہوگا، انہیں رہنما بننا ہوگا
ریڈیو زرمبش*پاکستا ن جس نے سویت جنگ میں افغانوں کو ہی افغان حکومت اور ریاست کے خلاف استعمال کیا، حالیہ افغان حکومت سے قبل بھی پاکستان طالبان کی حمایت میں پیش پیش رہا ہے، جبکہ حالیہ دنوں دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری، اختلافات حتیٰ کہ تضادات بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ آپ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں*؟
ڈاکٹر جلال بلوچ : جس وقت مغرب نے پاکستان کو وجود میں لایا تو افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں اس کے وجود سے انکار کیا۔شاید افغان رہنماؤں کو یہ احساس ہوچکا تھا کہ یہ غیر فطری ریاست ان کے وجود کے لیے بھی خطرہ بنے گا، جو آگے چل کر سچ ثابت ہوا۔ پاکستان کو وجود میں لانے کا مقصد ہی یہی تھاکہ سویت انقلاب کو روکا جاسکے۔ اسی لیے برطانیہ جب اس خطے سے جارہا تھا تو اس نے اس غیر فطری ریاست کو قائم کیا اور جب سویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تو امریکہ کو ایک بہانا مل گیا اورسویت یونین کے خلاف مغرب کی قائم کردہ ریاست نے ان کے لیے افرادی قوت اور ٹھکانے مہیا کیے۔ اس کے لیے پاکستان نے انہی دنوں امریکہ سے یہ معاہدہ بھی کیا تھا کہ افغانستان پاکستان کاپانچواں صوبہ بنے گا، امریکہ نے جس کی حامی بھی بھرلیا تھا۔ اور یوں پاکستانی آئی ایس آئی اور عسکری اداروں نے افغانوں کو وہ چاہے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں آباد تھے یا پھر افغانستان میں انہیں مذہب کے نام پر جنگ کی اس بھٹی میں جھونک دیا جس کے سبب لاکھوں افغان مارے گئے اور لاکھوں خاندان گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پہ مجبور ہوگئے اور یوں وہ افغانستان جو ترقی کی راہ پہ گامزن تھا پتھر کے زمانے میں پہنچایا گیا۔ اس پورے کھیل میں پاکستان کا کردار سب سے نمایاں رہا کیوں کہ اسے افغانستان چاہیے تھا جہاں معدنیات کی بھرمار ہے۔ اس جنگ میں ایک جانب افغان قتل کیے جارہے تھے تو دوسری جانب امریکہ اور سعودی فنڈنگ سے پاکستانی مقتدراعلیٰ پہ ڈالروں کی بارش ہو رہی تھی۔ ڈالروں کی بھرمار کی وجہ سے پاکستانی مقتدر اعلیٰ خونخوار بھیڑیے کی مانند افغانوں کا لہو بہایا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج افغانوں کو کسی حد تک ہوش آچکا ہے کہ پاکستان ہی ان کا ازلی دشمن ہے۔
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے مجاہدین کی حکومت ختم کرکے ایک جمہوری حکومت کی داغ بیل ڈالی تو پاکستان اور افغان حکومت کے تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی بڑگئی۔ اور اس دوران پاکستان نے ایک جانب امریکہ کو افغان طالبان اور القائدہ کے جنگجوؤں کو قتل کرنے کے لیے ٹھکانے اور فوجی اڈے فراہم کیے دوسری جانب افغان طالبان اور القائدہ کو افغان حکومت اور امریکہ کے خلاف محفوظ ٹھکانے اور مدارس کے ذریعے افرادی قوت بھی فراہم کرتا رہا۔ القائدہ کو محفوظ ٹھکانے دینے کی بات اس لیے کررہا ہوں کیوں کہ مئی 2011ء میں ایبٹ آباد جیسے حساس فوجی علاقے سے امریکہ کے ہاتھوں اسامہ کی گرفتاری ہے اس کے علاوہ پاکستان میں قائم مدارس فقط اسی مقصد کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ اور اس جنگ میں پہلے مجاہدین کے علاج معالجے کے لیے کوئٹہ میں نیشنل ہسپتال کا قیام ازاں بعد طالبان کے لیے سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ میں قائم سنگین ہسپتال بہت بڑی مثالیں ہیں کہ پاکستان کس طرح دوہرا چال چلتا رہا۔ اور جوں ہی امریکہ کے سامنے کسی طالب رہنما کے بارے میں راز فاش ہوجاتا یا وہ طالبان رہنما پاکستانی سوچ کو بھانپ لیتا تو اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے گریز نہیں کرتا اس ضمن میں بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔جیسے مولانا سلام ضعیف جسے نا صرف امریکہ کے حوالے کیا گیا بلکہ اس کی جس طرح کی تذلیل کی گئی اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ افغان طالبا ن نے امریکہ کی افغانستان میں قدم رکھنے کے بعد ہی پاکستانی عزائم کو بھانپ لیا تھا، چوں کہ اس زمانے میں انہیں بھی ایک محفوظ ٹھکانا چاہیے تھا تاکہ افغانستان میں وہ اپنی کاروائیاں بھی جاری رکھ سکیں اور اپنی لیڈرشپ کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے، اسی لیے بعض اوقات انہیں پاکستان کے ہاں میں ہاں بھی ملانا پڑا۔درحقیقت وہ وقت کا انتظار کررہے تھے کہ وقت آنے پہ پاکستان کو اس کا جواب دیا جائے گا اور آج ہم اس حوالے سے ان کے تعلقات کا بغور مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے کوئٹہ شوریٰ قائم کیا، پشاور شوریٰ قائم کیا اور اپنے لیے افراد اور عسکری قوت یہیں سے حاصل کی۔ دراصل میں سمجھتاہوں کہ اب کی بار افغان طالبان نے پاکستان کو استعمال کیا تھا۔اور یہ طالبان کی بہترین پالیسی اور حکمت عملی تھی جس میں انہیں کامیابی ہی حاصل ہوئی۔
ان سب باتوں کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مستقبل میں مزید گھمبیر ہوں گے، غالباً طالبان کی بھی یہی خواہش ہے کہ صورتحال ابتر ہوں اور خطے میں بسنے والے دیگر اقوام بھی اس غیر فطری ریاست کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ انہیں پاکستانی زیرِ قبضہ افغان علاقوں یا متنازع سرحد ڈیورنڈ لائن کے اس پار بسنے والے افغان علاقوں کو بھی افغانستان میں شامل کرنے کا موقع ملے۔
پاکستان نے جب حالیہ افغان حکومت کی پاکستان مخالف پالیسیاں دیکھی تو یہ غیر مذہب ریاست افغان حکومت کو اپنے سامنے زیر کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جس میں بارڈروں کی بندش اور ازاں بعد سالوں سے مقیم لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی جبراً بے دخلی جس سے افغانستان کی معیشت پہ کافی برے اثرات مرتب ہوں گے۔افغان مہاجرین کی جبراً افغانستان منتقلی کو عالمی اداروں نے بھی غیر انسانی فعل کی نظر سے دیکھا حتیٰ کہ ان کے لیے وسائل کے بندوبست کے حوالے سے بھی بات کی لیکن پاکستان ہٹ دھرمی پہ اترآیا۔ پاکستان کا یہی خیال تھا کہ طالبان حکومت ان کی ان پالیسیوں کے بعد سرِ تسلیم خم کرے گا لیکن معاملہ اس کے برعکس سامنے آیا۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ افغان حکومت کا بہت بڑا امتحان ہے جس میں وہ اب تک کامیاب ثابت ہوئے ہیں اور پاکستان کی یہ پالیسی افغانوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دے گی جس کا اثر پاکستانی زیر دست افغان علاقوں میں بھی محسوس کی جائے گی۔
ریڈیو زرمبش *تاریخی حوالے سے بلوچ اور افغان دوبرادر اقوام ہیں۔ زمانے سے ایک دوسرے کے اچھے ہمسایے چلے آرہے ہیں۔ نوری نصیر خان، اور پاکستانی قبضے کے بعد کے بلوچ آزادی پسند رہنماؤں اور افغان حکومت اور ریاست کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ کیا آزاد بلوچستان کی شکل میں افغانستان کے ساتھ تعلقات ماضی کی طرح دوستانہ رہیں گے یا دوریاں پیدا ہوں گی۔*
ڈاکٹر جلال بلوچ : اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچوں اور افغانوں کے تعلقات صدیوں بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ ہزارو ں سال قدیم ہیں کیوں ہیروڈوٹس اپنی کتاب میں رقم کرتا ہے کہ ہے۔The Utians and Mycians and Paricanians were equipped like Pactes.
یعنی یوتیئن(ہوت) ومائشی(محمدشئی یا مامشئی) اور پاریکانی(پرکانڑیں) سب پاکتیوں (افغانوں) کے سے انداز میں مسلح تھے۔ مطلب ان کی عسکری صف بندی ایک ہی انداز میں تھا۔ یقیناً ڈھائی ہزار سال قبل لڑی جانے والی اس جنگ میں یہ بلوچ قبائل اور پشتون ایک ہی صف میں ہوں گے جس سے ان کے خوشگوار باہمی تعلقات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ازاں بعد دورِ نصیری میں 1758ء کے معاہدے (معاہدہ کلات یا معاہدہ عدمِ مداخلت) کے بعد جس کی رو سے افغان حاکم احمد شاہ ابدالی نے بھی آزاد بلوچ ریاست کو قبول کرلیا تھا، تعلقات مزید بہتر ہوگئے۔ جس کے بعد دونوں اقوام کو ایک دوسرے کی مدد و کمک کے لیے کمربستہ دیکھ سکتے ہیں۔ رہی بات آزاد بلوچستان کے بعد ان کے تعلقات کس نوعیت کے ہوں گے؟ میں سمجھتاہوں کہ افغان رہنما بھی معاہدہ کلات اور ماضی کے بلوچ،افغان تعلقات کی جانکاری رکھتے ہیں لہذا امید یہی ہے کہ افغان حکومت اور بلوچستان کے تعلقات ماضی کی طرح خوشگوار ہی رہیں گے۔ بہتر تعلقات کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں اقوام پہلے پہل برطانوی مظالم اور ازاں بعد گزشتہ 76سالوں سے پاکستانی مظالم کا شکار ہیں۔ دونوں کو یہ جانکاری حاصل ہے کہ ان کا مشترکہ دشمن پاکستانی ریاست ہی ہے۔ اس پورے عرصے میں ظلم سہنے کے بعد ماضی میں بہتر تعلقات کا احساس مزید پروان چڑھے گا کیوں کہ اگر آپسی رنجشیں بڑھ گئی تو کو ئی اور قوت اس پورے خطے کو ہڑپنے میں دیر نہیں کرے گی اور اس بات کی جانکاری دونوں اقوام کے رہنماؤں کو ہے۔
ڈاکٹر جلال بلوچ *بلوچ قومی تحریک جو پاکستانی قبضہ کے فوراً بعد شروع ہوا، لیکن وہ تحریک انتہائی مختصر مدت میں پسپا بھی ہوا، ازاں بعد 1958، 62-64، اور سترکی دہائی کی تحریکوں کی عمر بھی کافی مختصر رہی۔ لیکن حالیہ تحریک آزادی بیس سال سے زائدکا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس میں آئے روز شدت بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کے اسباب کیا ہیں*؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچ رہنماؤں کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ برطانیہ جاتے جاتے بلوچوں کو دھوکہ دے جائے گا، بلوچوں کا خیال یہی تھا کہ برطانیہ کے جانے کے بعد بلوچستان کے وہ علاقے جو مستجار لیے گئے تھے یا جو معاہدات کی رو سے تقسیم کیے گئے تھے وہ برطانوی ہند کے 1935 کے آزادی ایکٹ کی شق نمبر 7کے تحت دوبارہ انہیں مل جائیں گے۔ ایک اور بات کہ پہلی جنگ فقط دو مہینے کے اندر اندر زوال کا شکار ہوا، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ اب ہم مکمل آزاد ہوچکے ہیں لہذا انہوں نے تیاری ہی نہیں کی، ایک اور وجہ کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے اپنے دس گیارہ سالہ دور میں مسلح مزاحمت کے حوالے سے کوئی پالیسی یا پروگرام مرتب ہی نہیں کیا حالانکہ سماج میں انہیں کافی پذیرائی ملی تھی، جیسے انتخابات میں اکیاون میں سے انتالیس نشستوں پہ ان کے نمائندوں کی کامیابی۔ایک اور سبب کہ وہ تحریک نئی تھی جس کو بلوچ رہنما مسلح مزاحمت کے ذریعے فروغ دینا چاہتے تھے، الغرض وہ زمانہ ہی کچھ ایسا تھا کہ کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کو لعدم قراردیا گیا تھا اور نئی جماعت بنانا یقیناً کوئی آسان عمل نہیں تھا اسی لیے انہوں نے براہ راست مسلح مزاحمت کا فیصلہ کیا اور اگر انہیں وقت مل جاتا یا وہ اس تحریک کو طوالت دے جاتے تو آنے والے دنوں میں سیاسی جماعت بھی وجود میں آسکتاتھا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دو ہی مہینوں میں تحریک کے رہنماؤں کی گرفتاری سے عمل آگے نہ بڑھ سکا۔اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں بھی تحریک فوکو تھیوری یعنی فقط مسلح مزاحمت کے گرد، گردش کرتا رہا حالانکہ اس زمانے میں دنیا کے بعض محکوم اقوام نے آزادی کے حصول کے لیے سیاسی جماعتیں بھی قائم کیں اور ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت کو بھی پروان چڑھاتے گئے، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ مسلح مزاحمت سیاسی تنظیموں اور جماعتوں کی وجہ سے ہی پروان چڑھتی ہے جس کا نظارہ آج ہم بلوچ تحریک آزادی میں دیکھ سکتے ہیں جو گزشتہ بیس سالوں سے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے حتیٰ کہ اس دوران سینکڑوں لیڈر و کیڈر شہید ہوچکے ہیں اور بے شمار سیاسی کارکنان قبضہ گیر کے عقوبت خانوں میں مقید ہیں لیکن پھر بھی تحریک کی روانی میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا جارہا بلکہ اداروں کے قیام کی وجہ سے تحریک آئے روز توانا ہوتا جارہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی دراصل کامیابی کی ضمانت ہے۔اس حوالے سے میں نے اپنی کتاب ”پولیٹیکل منیجمنٹ“ میں یہ تحریر کیا ہے کہ”جو کام ہمیں بیسوی صدی کے اوائل یا درمیانی عرصے میں کرنا چاہیے تھا اس کی عملی صورت بلوچ سماج میں ہم اکیسوی صدی میں دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں ایک جانب بلوچ قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی قیادت میں بلوچ طلباء تنظیم (بی ایس او آزاد) کا قیام اور اگلے ہی سال انقلابی پارٹی جس کی ضرورت بلوچ معاشرے میں شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی تھی شہید غلام محمد بلوچ کی قیادت میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد(بی ایس او آزاد) اور بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)نے اس دوران بلوچ سماج کو انقلاب کی راہ پہ متحرک کرنے کے لیے شب و روز محنت کیا اور ایک مختصر عرصے میں پورے بلوچستان میں مقبولیت کے جھنڈے گھاڑتے گئے، جس سے خوف زدہ ہو کر ریاست اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آیا، جہاں ہر قسم کے غیر انسانی طریقے استعمال کیے گئے۔“ لیکن تحریک جس راہ پہ گامزن ہوچکا ہے اسے ختم یا کمزور کرنے میں ریاست کو ناکامی ہوئی کیوں کہ ادارے رہنما پیدا کرتی ہیں جس کا عکس ہم حالیہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔