چاغی۔۔۔کیا ہوا؟کس نے کیا؟کیوں کیا؟کب ہوا؟...کون جانتا ہے؟؟؟ جو کہوں بس چاغی یاد آتا ہے۔ظلم کہوں تو چاغی،جبر کہوں تو چاغی،بربریت کہوں تو بھی چاغی۔بس چاغی،چاغی اور چاغی۔ .بم برسایا گیا،کیا فرق!چاغی ہی تو تھا، تباہ ہوا،کیا فرق!چاغی ہی تو تھا۔ سندک پروجیکٹ سے محروم کیا،کیا فرق!چاغی ہی تو تھا۔جو ہونا تھا ہوگیا کسی کو کیا فرق۔بس! چاغی ہی تو تھا۔ فرق نہیں اس لیے کچھ پتا نہیں،کچھ خبر نہیں۔ چاغی،بلوچستان کے مغربی جنوب میں واقع ہے جو کہ بلوچستان کا سب سے بڑا اور مالامال ضلع ہے۔جس کا کُل رقبہ 44,000 مربع کلومیٹر ہے۔چاغی ہی وہی ضلع ہے جو کہ پاکستان کے ظلم کاشکار رہا۔ 28 مئ 1998 کو چاغی کے ایک پہاڑ راسکوں پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں پانچ نیوکلئیر بم برسائے گئے ایک زیرِ زمین جبکہ باقی چار سطحِ زمین پر۔جس سے چاغی بہت متاثر ہوا۔ جب بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ چاغی پر نیوکلئیر بم برسانے کا مقصد کیا تھا کونسی ضرورت آن پڑی کہ چاغی پر اتنا بڑا جبر کیا گیا تو جواب میں صرف یہ سننے کو ملتا ہے کہ انڈیا کے نیوکلئیر بم کے جواب میں برسایا گیا ہے تاکہ انڈیا کو بھی پتا چلے ہم بھی کتنے طاقتور اور مضبوط ہیں ۔ انڈیا کا جواب کسی اور علاقے میں بھی دیا جاسکتا تھا پر چاغی ہی کیوں؟بلوچستان کا علاقہ ہی کیوں؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سرسبز علاقہ ہے۔یہاں آبادی زیادہ ہے تو کیوں؟ کیونکہ ان کا مقصد ہی یہ تھا کہ بلوچستان کی علاقے کو ویران اور کھنڈر بنا دیا جاہے۔بلوچستان کے لوگوں کو ہی مارا جاہے۔ دوسری بات وہ ضلع چاغی ہی تو ہے جو کہ بلوچستان کے مالامال ضلعوں میں شمار ہوتا ہے جس میں یورینیم بھی تھا جو کہ نیوکلیئر ہتھیار بنانے کا اہم زریعہ ہے اور بس دھماکے کردیئے۔لوگوں کو ماردیا،زرخیزی چھین لی۔مال ہڑپ کر گئے کیونکہ آزادی سے پہلے اور تاحال پاکستانیوں کی نظر بلوچستان اور اس کے قدرتی وسائل پر ہے اور یہ ان چیزوں کو حاصل کر کے رہیں گے چاہے قانونی طور پر ہو یا غیر قانونی مگر وسائل ان کو چاہیے۔ اتنا کچھ کر رہے ہیں اور اتنا کچھ کرلیا پھر بھی بے خبر۔۔۔ جب بھی بات کی جاہے ظلم کی تو پاکستانی گلہ پھاڑ پھاڑ کر دوسرے ملکوں کا نام لیتے ہیں لیکن اپنے اندر جھانکے نہیں اور نہ ہی دیکھتے کہ اپنے اندر کتنا بڑا درندہ بسا ہوا ہے۔ یہ تو ضرور کہتے ہیں کہ یاد ہے تمہیں! اگست1945 کو امریکہ نے جاپان کے علاقے ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم برسائے تھے ۔کتنا ظالم ہے امریکہ والے ذرا بھی ترس نہ آیا پتا نہیں بیچاروں نے کتنا ظلم سہا ہوگا ،کتنے نقصانات اُٹھاہے ہونگے،کتنی جانیں گئی ہونگی،کتنی مائیں اپنے بیٹوں سے اور کتنے باپ اپنے بیٹیوں سے جدا ہوئے ہونگے اور یہ ہے،وہ ہے۔لیکن یہ کبھی نہیں کہیں گے کی ہم نے کیا کیا گل کھلائے ہیں ۔ہم نے کیا گناہ کیا ہے۔ہم نے ایک سرسبز پہاڑی علاقے کو ویران اور بنجر کر دیا۔ہستے بستےگھروں کو اُجاڑ کر ریگستان بنا دیا۔ہم نے وہ باغ جہاں صرف پھول ہی پھول کھلتے تھے وہاں نعشیں بکھیر دیں، خون کے دریا بہا دیئے۔ایک روشن اور خوبصورت علاقے کو قیامت اور خاکسار بنا دیا۔ہم نے وہ علاقہ جہاں ہنسیوں کی آواز گونجتی تھی اب شہرِ خاموشاں یعنی قبرستان بنا دیا۔ہم نے وہ معصوم بچّے جو خوشیوں سے جھوم اُٹھتے تھے ان کو معزور بنا دیا۔پھر بھی یہی کہیں گے ہم نے کیا کیا؟ ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں کیوں کہ اپنا ظلم،ظلم نہیں ہوتا۔چلو اگر امریکہ نے جاپان پر حملہ کیا وہ تو دشمن تھے ایک دوسرے کےجاپان تو الگ ملک تھا۔پر چاغی،چاغی تو بلوچستان کا ضلع تھا۔ویسے تو کہتے ہو کہ بلوچستان میں بھی مسلمان ہیں ۔ ہمارے بھائی ہیں بلوچستان پاکستان کی جان ہے تو یہ سب کیوں؟ کیا صرف بلوجستان ہی پاکستان کی جان ہے؟بلوچستان کے لوگ نہیں۔کیا صرف بلوچستان ہی پاکستان کی جان ہے؟بلوچستان کے باشندے نہیں۔؟ ہے تو بلوچستان بھی تمہارا نہیں،جان بھی بلوچستان تمارا نہیں۔بس اس کے وسائل پر قبضہ چاہتے ہو۔اس کے سونے،چاندی اور تانبہ یہ سب کچھ چاہیے۔لوگوں کا کیا جیئے،مرے کوئی فرق نہیں۔ چاغی جہاں سونا اور تانبہ ایک حد تک پایا جاتا ہے۔جہاں 12.3 لاکھ ٹن تانبہ موجود ہے اور 20.9 لاکھ اونس سونا پایا جاتا ہے.صرف یہ نہیں بلکہ سندُک،بلکہ سنگِ مرمر یہ سب پایا جاتا ہے بس اسی حِرص و لالچ میں تو یہ سب کچھ کیا۔ پاکستان اور پاکستانیوں نے چاغی کے حملے سے بہت فائدہ اُٹھایا مگر آج تک وہاں کے رہنے والوں کی حالات ٹھیک نہیں۔آج بھی وہاں کچھ اُگتا نہیں نہ پھل اور نہ پھول۔آج بھی بچّے معزور پیدا ہوتے ہیں۔کسی بچّے کا پاؤں نہیں تو دوسرے کا ہاتھ نہیں۔کوئی اندھا تو دوسرا گونگا۔کوہی بہرا تو دوسرا پاگل۔ایک زندہ نعش تو دوسرا مردہ۔بس یہ ہے انکی بے بسی و لاچاری۔ پاکستان حملے کے بعد "نعرہِ تکبیر, اللّہُ اکبر" کرتے ہوئے خوشی خوشی جشن منانے نکل پڑے۔اس دن یومِ تکبیر منایا گیا۔یہ دن یومِ تکبیر کا نہیں بلکہ یومِ سیاہ ہے۔اس دن نسلوں کی تباہی ہوئی ،ترقی نہیں۔اس دن غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور خوشیوں کا جنازہ نکل گیا۔اس دن لوگوں کے خواہشات،جینے کی حسرتیں درخت کے پتوں کی طرح اُجڑ گئے۔ اس دن صرف گھروں کو نہیں بلکہ دلوں کو آگ لگی۔اس دن نہ آرام تھا نہ سکون بس قیامت برپا تھا۔یہ دن آخری عمر تک یاد رکھا جائیگا اور یہی دن ان کی تباہی کا سبب ہوگا۔بس ایسا ہی کرو اے وحشی اور ظالموں ایسا ہی کرو تم بم برساؤ اور ہم نعشیں اکٹھا کریں گے۔تم ظلم کرو ہم بھی مظلوم بن کر جیئے گے۔تم ظلم کرکے چُپ رہو ہم حق کی باتیں بولیں گے۔تم بڑے بنگلوں میں چُھپتے رہو ہم کفن پہن کر نکلیں گے۔تم 2,3 نعشیں اور گراؤ ہم 100 اُٹھ کھڑے ہونگے۔تم ہمیں گہرے اندھے کنویں میں دھکیلو ہم روشنی کے دیے جلائیں گے۔اے غاصب تم بھی فرعون بن کر آؤ ہم بھی موسیٰ بن کے آئیں گے ۔تم بھی خون کے دریا بہاؤ ہم بھی ان میں تیریں گے۔تم بس ظلم کرو ہم بھی مظلوم بن کر جیئں گے۔ چاغی جس کو دیکھنے کے لیے لوگ ترستے تھے اب کوئی آنکھ اُٹھا کے دیکھتا نہیں۔چاغی جس کی خوبصورتی پر لوگ حیران تھے جس کی خوبصورتی پر لوگ مر مٹتے تھے اب اس کے حق کے لیے کوئی ایک لفظ بولتا نہیں۔ کیا خوبصورت چاغی حق نہیں مانگتا؟کیا چاغی اپنے لوگوں کا بدلہ نہیں چاہتا؟کیا چاغی اپنے پُر کشش پھول،باغات اور اس میں چرنے والے جانوروں کو نہیں پکارتا؟کیا چاغی اپنے بچّوں کو کھڑا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا؟کیا چاغی ایک روشنی کی کرن نہیں چاہتا؟کیا چاغی کچھ بھی نہیں چاہتا؟ چاہتا تو سب ہے مگر کرنے والا کوئی نہیں۔۔۔ ہر رات کے بعد ایک صبح آتی ہے،سورج اپنے پنکھ پھیلاتے ہوئے اُمنڈ آتی ہے۔سورج کی کرنیں پھولوں پر شبنم کے قطروں پر پڑتی ہے تو چمک اُٹھتی ہے۔پرندے چہچہاتے ہوئے اور تتلیاں اُڑتی ہوئی دیکھائی دیتی ہیں۔چاروں طرف جب ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو باغات کے پھول کِھل اُٹھتے ہیں اور ان کی خوشبوں چاروں طرف پھیلتی ہے اُف کیا نظارہ پیش کرتی ہے مگر چاغی نہیں۔چاغی ویسے کے ویسے ہی ہے۔ویسے ہی کالے بادلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ چاغی ویسے ہی خاموش قبرستان ہے۔کبھی تو ایسے لگتا ہے جیسے قدرت نے بھی چاغی کو چھوڑ دیایے۔چاغی کو لاوارثوں کی طرح اکیلا کر دیا ہے اب تو ایسے ہی لگتا ہے کہ چاغی کا مقدر ہی یہی ہے۔بنجر ریگستان،بکھرے کانٹوں والا خشک جنگل،قبرستان جیسا خاموش علاقہ۔بس چاغی۔چاغی،یہی تو تیرا مقدر ہے۔چاغی تو تو دھول و مٹی میں پڑی ہوئی ایک بند آسیب زدہ کتاب ہے۔تیری کہانی،تیرے غم و دکھ،تجھ پر ظلم و جبر کی داستان اُسی کتاب میں تو تحریر ہے۔مگر تیرا کتاب تو بند ہے اس پر تحریر جو کچھ بھی ہے کسی کو دکھائی نہیں دیتا ۔سب کچھ ایک سیدھا لکیر بن گیا۔تیرا وجود مٹ گیا۔نہ تو کبھی تھا اور نہ ہی ہے۔تیرا کوئی ذات نہیں۔ پتا ہے چاغی کا کوئی ذات اور وجود کیوں نہیں۔اس لیے کہ جب چاغی سے کچھ سوالات پوچھے گئے تو سب کچھ سچ بول کر بڑا فخر کیا۔ جب پوچھا تو کون ہے تو چاروں طرف سے آواز آئی میں چاغی ہوں۔جب پوچھا گیا کہاں سے ہو تو پہاڑوں سے صدا گونجی میں بلوچستان سے ہوں۔پھر پوچھا تیرا اور بلوچستان کا تعلق کیا ہے تو ان ہواؤں کے چکروں نے کہا میں بلوچستان کا سب سے بڑا اور مالامال ضلع ہوں۔پھر پوچھا تیرے باشندے کون ہیں تو کہا بلوچ،پشتون ،ہندو اور ہزارا ہیں تو ہونا ہی تھا۔بول دیا جو انکو سننا تھا۔کر دیا جو ان کو کرنا تھا۔کہ ایک تو چاغی، دوسرا بلوچستان سے،تیسرا مالامال اور چوتھا باشندے۔ تیرے شناخت کے لیے بلوچستان اور اس کے باشندے ہی کافی تھے۔ اب نہ مال رہا۔نہ وجود رہا نہ کوئی تعلق۔بس ایک بند اندھیرے ڈبّے میں ایک بے نام،نام چاغی اور بس