آج میں ایک ایسے انسان کے بارے میں لکھنے کی کوشش کررہا ہوں،جس کے بارے میں جتنا بھی لکھوں اتنی کم ہے۔شہید شکاری عرف عارف بلوچ کولواہ کے علاقے سحر میں واجہ علی بخش کےگھر میں پیدا ہوئِے اور بلوچستان کے غربت زدہ حالات کی وجہ سے آپ کئی سالوں تک غریبی کی زندگی گزارتے اور زمینداری کرتے رہے۔ غریبی کے لپیٹ میں آپ بہت محنت کی اور غریبی کی وجہ سے آپ دبئِی گئِے اور وہاں کچھ عرصے تک کام کیا ۔ سر زمین کی عشق اور پیار کی وجہ سے آپ نےآخر اپنی اصل مقصد کو سمجھ لیا ،اس کو حاصل کرنے کے لیے پہاڑوں میں نوجوانوں کے ساتھ 2014 میں BLF میں شمولیت اختیار کی۔ اور بلوچستان کی آزادی کے لیے ایک سچے سپاہی بن گئِے ۔ شکاری جان ایک انتہائی دلچسپ ،خوش اخلاق انسان ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک خوش مزاج انسان تھے جو ہر وقت ہنستے مسکراتے تھے۔ آپ کی مخلصی اور ایمانداری کی وجہ سے آپ کو سیکنڈ لفٹننٹ کا عہدہ فائز کیاگیا تھا۔ شکاری جان آپ کی وہ مجلس اور دیوان بہت یاد آتے ہیں ،جو کولواہ کے پہاڑوں میں آپ مسلسل بلوچستان کی باتیں کرتے تھے ،کبھی قصے سُنا رہے تھے ،تو کبھی پارلیمانی سیاستدانوں کا مزاق اڑاتے ہوۓ ساتھیوں کو ہنساتے اور خود خوب ہنستے تھے۔ مجھے یاد ہے جب میری اور آپ کی گشتی ٹیم تیار ہوئی ، میں اور آپ سفر کی جانب روان ہوئے تو اُس سفر کےدوران مجھے آپ کی مخلصی اور ایمانداری ،خوش مزاجی اور آپ کی جنگی خدمات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ دورانِ سفر آپ ہمیں ہمیشہ ھنساتے رہے اور ہم ہمیشہ خوش ہوتے ہوۓ سفر کرتے رہے ۔ اس خوش مزاجی کی وجہ سے میں اکثر شکاری کہ ساتھ سفر پر ھمراہ ہو جاتا اور ہم دونوں خوب مزاق کرتے تھے۔ لیکن شکاری جان آج اس بات کو ایک عرصہ بیت چکا ہے آپ سے بچھڑے ہوئے ۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں اس پہاڑ میں واپس ملوں گا لیکن میں آج کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد پہاڑ کے اس چوٹی مقام تک پہنچ گیا ہوں جہاں ہم ملتے تھے لیکن اب ہنسانے اور مسکرانے کی جگہ صرف آپ کی یادیں رہ گئی ہیں۔ شکاری جان آپ جسمانی حوالے سے ھمارے درمیان میں نہیں ہیں لیکن آپ کی سوچ و فکر فلسفہ آج بھی زندہ ہے . اکثر ھم یہ بات سُنتے ہیں کہ شہید کبھی مرتے نہیں کیونکہ شہید کی موت قوم کی حیات ہوتی ہے اور ایک انسان اپنی جان قربان کرکے دوسرے ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کو زندگی بخشتا ہے۔شہید کے لہو کے قطرے زمین پر گر کر زمین کو سیراب کرتے ہیں۔ اگر کسی انسان نے اپنے زندگی میں کوئی اچھا کردار ادا کیا یا اپنے قوم و سر زمین کے لیے اپنی قیمتی جان قربان کیا تو ایسے باکمال اور عظیم کردار کبھی نہیں مرتے اُنکا نظریہ ،سوچ اور اُنکی فکر انہیں مرنے نہیں دیتی بلکہ وہ اپنے عظیم خیالات اور کردار کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں ۔ شہید شکاری کا ایک قول مجھے یاد ہے کہ جب شہید رسول جان کو دفن کیا جا رہا تھا آپ نے ہزاروں لوگوں کے سامنے شہید رسول جان کے قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ کے جانے کے بعد میں وعدہ کرتا ہوں کہ میری قبر آپ کی قبر کہ برابر ھوگا اور آپ نے یہ ثابت کر کہ دکھایا۔ اگر ھم بلوچ تاریخ پر نظر ڈالیں توایسے جھدکار اور وطن دوست ملینگے ، اگر اُن کی قربانیوں کو لکھنا شروع کریں میرے خیال میں صدیاں گُزر جائینگی لیکن اُن کی کہانی پورا نہیں ھوگا اور ہم لکھتے لکھتے تھک جائینگے ، تاریخ اُن کو ضرور یاد رکھے گی جو اپنے بچوں اور فیملی کو چھوڑ کر اپنے مادرِ وطن پر قربان ہونے کا فلسفہ چُنتا ہے۔ ہمے کہ روچ دیگر ءَ کپیت وتن بلیت ءُ روک بیت گوں سرمچار جوزہاں ہزار دل ہزار گام ماں گلزمین ءِ سینگ ءَ اے چست بنت ءُ سرگر اَنت شاعر : قمبر قاضی ۔