ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

عورت اور بلوچ سماج تحریر: مالک بلوچ

عورت اور بلوچ سماج   تحریر: مالک بلوچ

OCT

11
11 / 10 / 2023 مضامین

عورت کی لفظی معنی کچھ اس طرح ہے کہ وہ گھر کی چار دیواری میں موجود ہر وقت اپنی زندگی وقف کرنے کی ہے لیکن کچھ دانشور، پروفیسرز یوں کہتے ہوئے کہ عورت صرف گھر کی چار دیواری میں بند کرنے سے سماج کی ترقی ناممکن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لہذا اس حوالے سے آج بھی چند ایک معاشروں میں جن میں اگر ہم بلوچ سماج کی بات کریں تو یہاں جڑی بوٹیاں بیجنے والی عورتیں ہیں جنہیں لوکل زبان میں پو پو (دوائیاں فروخت کرنے والی) کہا جاتا ہے۔ آج بھی بلوچ سماج میں یہ قدیم طرز کی موبائل میڈیکل ٹیمیں ہمیں ساروان اور جہلاوان میں دیسی دوائیاں فروخت کرتی نظر آئیں گی۔ یہ یقیناً قبل از تاریخ کا طریقہ کار ہے جسے آج تک چند ایک گروہوں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اگر اس حوالے سے مزید تحقیق کیا جائے تو یقینا عورتوں کے اور بہت سارے کار نامے ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔ جیسے ذکر ہو چکا ہے کہ مہر گڑھ میں عورت سماج اور معاشی ذمہ داریاں پوری کرتی تھی۔ بلوچستان اور بلوچ معاشرے کی اگر بات کی جائے تو یہاں آج بھی عورت قابل احترام ہستی سمجھی جاتی ہے۔ اس کی واضع مثال کچھ یوں ہے کہ عورت اگر لڑائی کے میدان میں اپنی چادر بچھا دے تو کشت وخون کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے، اگر عورت میڑھ لے کے جائے تو خونی تصیفے غیر مشروط طور پہ حل ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر شاہ محمد مری رقم طراز ہے کہ مہر گڑھ سے برآمد ہونے والے غلے کے گودام اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جو جوار، باجرہ، گندم، کجھور، انگور اور کپاس کی کاشت مہر گڑھ میں شروع ہوئی، کپاس کا کھات کر پارچہ بافی بھی عورت نے ایجاد کیا۔ جنگلی بھینس، گائے، بیل اور بھیڑ بکریاں وغیرہ بھی عورت کے ہاتھوں پالتوبنیں۔ اس بابت ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں مائی بیبو ہمارے لیے ایک مثالی کردار ہے۔ انہوں نے خان آف قلات احمد یار خان کی باروزئیوں کے ہاتھوں پے درپے شکت کے بعد سبی اور اس کے مضافات پہ فتح کا علم بلند کیا۔ اور جب سے بنی نوع اِنسان نے دنیا میں قدم رکھا ہے، عورت حالات کا مقابلہ کرتی آئی ہے اور اس نے اپنی جرات اور شجاعت کے کار نامے دکھائے ہے۔ مذاحمت عورت کی بھی اتنی میراث ہے جتنی کہ مرد کی۔ عورتوں نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا ہے، آسمانی اور قدرتی آفتوں کا بھی اور انسان کی پیدا کردہ مصیبتوں کا بھی۔ اس نے جنگوں میں بھی حصہ لیا اور ظالمانہ معاشروں اور ظالم بادشاہوں اور حکمرانوں کے خلاف بھی کھڑی ہوگئی۔ اگر ہم بلوچ تحریک میں خواتین کے کردار کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے کہ یہاں خواتین کا کردار انتہائی محدود ہے۔ تاریخی حوالےسے بلوچ سماج سیکولر ہونے کے باوجود سترسالوں سے جاری تحریک میں خواتین کا کردار آٹے میں نمک کے برابر ہونا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ بقول فرنانڈو بروڈل کہ "ہر تہذیب میں عورت کے کردار کا تعلق اس کی ساخت اور تشکیل سے ہوتا ہے۔ اس لے اگر کسی تہذیب میں تبدیلی کے عمل کو دیکھنا ہو تو اس میں عورت کے کردار کو دیکھنا اچھا مطالعہ ہو گا"۔ اور اسی لیے نپولین کہتا ہے کہ"تم مجھے پڑھی لکھی ماں دو میں تمہیں پڑھا لکھا قوم دونگا اور ہندوستانی رہنما سبھاش چندر بوس کا کہنا تھاکہ"تم مجھے بہادر ماں دو میں تمہیں ایک بہادر قوم دونگا"۔