یہ کہاوت مشہور ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں ۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ بہروپیئے لوگ جو اپنی ذاتی مفادات ،حرص ، لالچ ،خود غرضی ، جیسے دیگر برائیوں کو چھپانے کی خاطر مصنوعی اچھے بننے کی کوشش کرتے ہوئے عام لوگوں کو چکمہ دیکر اپنی بری روپ کو اصلی کا چادر چڑھا کر سامنے آجاتے ہیں جو ان کی فطرت میں شامل ہے مصنوعی طریقے سے وہ لاکھ اچھا بننے کا ڈھونگ رچائیں مگر وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی خول میں ڈھل جاتے ہیں جو وہ فطرتا ہیں۔ ہم اور آپ اکثر دیکھتے رہے ہیں کہ کوئی بھی جانور شکار کو حاصل کرنے کیلے دیکھتے ہی حملہ آور نہیں ہوتا، وہ موقع پاکر حملہ کردیتا ہے جب اسے یقین ہوکہ وہ اسے دبوچ سکتے ہیں چاہئے یہ شیر ہی کیوں نہ ہو ، شکار تک پہنچنے کیلے چھپ کر وار کرتا ہے یا اسے پہلے قریب آنے کیلے محفوظ راستہ دے دیتا ہے ۔ عین اسی طرح صحت مند معاشرے کو نابود کرنے کیلے بہروپیہ یا ٹھگ کسی بھی شعبہ ادارہ مثلا طب ، سیاست ، فوج، ،حکومت ،مذہب گروہ ، کوئی بھی تنظیم پارٹی وغیرہ ہو اس میں وہی چادر اوڑھ کر گھس کر جگہ پانے کیلے اسے شعبہ کو چن کر اسی میں گھس کر وہی چادر اوڑھ کر دیمک کی طرح اس شعبہ کو وقت کے ساتھ ساتھ کھاکر بھسم کردیتاہے ۔ اگر ہم فرض کرتے ہوئے صرف سیاست کو ہی لے لیتے ہیں تو یہاں ٹھگ پہنچتے ہی ذاتی مفادات کی حصول اور عوام میں جگہ پانے کیلے وہ سب سے پہلے یکجہتی، تحریک ،جدوجہد کو آگے بڑھانے لےجانے غلامی سے چھٹکارا ایک مٹھی ہونے،ترقی ، جیسے دیگر دسیوں نعرے دینا شروع کردیتے ہیں آہستہ آہستہ وہ وہ مزکورہ پارٹی تنظیم میں غیر محسوس انداز میں جگہ بناکر بعد میں اسے سرعام یرغمال بنالیتے ہیں، یہاں اگر کسی نے اس کا اصل چہرہ بھانپ لیا اور اس سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی تو وہ اسے راستے سے کسی نہ کسی بہانے ،بہتام،ہیرا پھیری جیسے طریقے سے ہٹا دیتے ہیں، اگر وہ ہاں میں ہاں ملاکر چلتےہیں تو وہ اسے مزید وقت کیلے ساتھ رکھتے یا اس کے قریب رہتے ہیں۔ پارٹی تنظیم کو مکمل قبضہ کرنے کے بعد اگر پارٹی صاحب حیثت ہے تو وہ اس میں ڈبکی لگا نا شروع کردیتاہے اگر نہیں ہے تو وہ مراعات حاصل کرنے کیلے تحریک کے نام پر پارٹی کو مورچہ بناکر مراعات پیدا کرنے کے لیے راستے ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں ۔ اگر مراعات سیدھی انگلی سے حاصل نہ ہوں تو وہ انگلی ٹیڑھی والی دوڑ میں شامل ہوجاتاہے۔ پھر سب سے پہلے خود غرض لالچی ٹھگ ذاتی مفادات حاصل کرنے کا سلسلہ لوٹ مار کی ابتداء اپنے اردگرد سے ہی کرلیتا ہے ، مثلا علاقہ میں لینڈ مافیا ،منشیات فروش ،مقامی ٹھیکدار ،مالدار ،اس طرح آگے چل کر سرمایہ دار،کارخانہ دار ، بیوروکریٹ ، پھر حکومت ، وغیرہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ۔ اگر وہاں نہیں پہنچ سکتے تو ، علاقائی ہر شعبہ کے مافیا سے جڑے رہنے کو آفیت سمجھتے ہیں۔ اور یہیں سے کالا دھن اکھٹا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ چاہئے اسے یہ کام پیار یا مار سے کیوں کرنا نہ پڑے وہ دونوں شعبوں میں چالاکی اور پھرتی سے کام کرنا شروع کردیتا ہے ۔ جب یہ دھندہ فائدہ دینا شروع کرے اور عروج تک پہنچ جائے تو وہ اجتماع سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی کوشش میں دھیان دینا شروع کردیتا ہے، وہ اتحادیں توڑنے شروع کرکے یہاں تک کہ وہ آخر میں اپنی ہی خاندان تک اپنے آپ کو محدود کر لیتے ہیں ۔ ہر سوال کا ایک جواب میں میں، میں دینا شروع کردیتے ہیں کہ یہ میرا ذاتی ہے وہ میں نے تحفے میں لیئے ہیں، یہ فلاں نے خود میرے لیے بھیجے دیئے ہیں ، یہ شہدا کی امانت ہیں جو میرے پاس ہیں( کوئی پوچھے کیا وہ امانت شہداکے بچے نہیں سنبھال سکتے تھے ) ۔ بار بار ایسے جملے سن سن کر اجتماعی سوچ رکھنے والے قریبی لوگ مزکور لالچی خود غرض شخص گروہ یا مجمعہ سے بیزار ہوکر فاصلہ میں رہنا ،پسند کرکے ایک کنارے نکلتے ہیں ، اس طرح ابن الوقت کو پہلے اتحادی پھر حمایتی، اس کے ساتھی پھر عزیز اقارب خاندان آخر میں اس کے بچے بھی نفرت شروع کرکے چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ جس اجتماعی مقصد کیلے اسے کاندھے پر بٹھاکر بلندی پر پہنچایا گیاتھا وہ حاصل کرنے کے بجائے اپنی ذات تک ہی محدود رہے ، لوگ غلامی سے چھٹکارا چاہتے تھے ،انھوں نے طوق غلامی کو ختم کرنے کے بجائے خود کو ہیرو بنانے میں وقت ضائع کردیئے ۔ لوگ،مذہبی شدت پسندوں ، جاگیردار سرمایہ داروں ،منشیات فروش ،چور ڈاکووں سے چھٹکارا چاہتے تھے وہ ذاتی مراعات کی حصولی کی خاطر انھیں ہی گلے لگاکر دوست بناکر انکے ہاتھ مضبوط کرکے خود بھی غیر محسوس طریقے سے انھیں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں۔ اس لیئے ہر انسان کیلے سبق ہے کہ وہ چاہئے کسی بھی شعبہ میں کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں وہ وہیں دلجان لگاکر اجتماع کو مدنظر رکھ کر کام کریں ،اگر کوئی کارخانہ ہے تو یہ سوچیں کہ اس کے پھلنے پھولنے سے ہم بھی آباد ہونگے ، اگر اجتماعی غلامی ختم ہو رہی ہے تو یہ سوچ رکھیں کہ ہم بھی آزاد سانس لے سکیں گے ۔ اگر سائنس ترقی کررہاہے تو ہماری ہی ترقی ہے ،ان سہولیات سے ہم بھی مسفید ہونگے ۔ اس لئے ہر انسان کو چاہئے کسی بھی شعبہ میں ہو اگر خود غرضی لالچ ذاتی مفاد کے چادر میں دانستہ یا نادانستہ پھنس کر اوڑھا ہوا ہے تو اس چادر کو نکال باہر پھینکنا چاہئے جو سب سے پہلے ہماری ہی ذات کو نگلنے کا باعث بن رہاہے ،اس کی جگہ انسانیت کو اولیت دیکر قدم اٹھانا چاہئے تاکہ ترقی یافتہ سماج اور صحت مند معاشرہ ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے ۔