عام آدمی روز مرہ زندگی کے متعدد مسائل، زمہ داریوں میں اسطرح گرا ہوا ہوتا ہے کہ وہ دن رات چار وقت کی روزی روٹی کمانے کے چکر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے، لیکن انکے خواہشات کبھی پورا نہیں ہوسکتے۔ ایک غلام سماج اور نوآبادیاتی نظام میں حکمران طبقہ پسماندہ اور غلام سماج کو مزید پسماندہ کرنے اور انہیں اپنے تابع بنانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر پالیسیاں بناتے ہیں، ان کا سب سے زیادہ نظر اور رجحان قوم کے شعور اور تعلیم یافتہ نوجْوان پر ہوتا ہے۔ حکمران طبقے کو نہ کوئی معاشی مسائل درپیش ہیں اور نہ ہی روز مرہ زندگی کے دیگر معاملات میں وہ گِرے ہیں، بلکہ ان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ نوجْوانوں کو کسطرح اپنے قابو میں لاسکتے ہیں، ان کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ تازہ زہن اور دماغ کے ساتھ نوجْوانوں کے رویوں، کردار، اور زہن کا نفسْیاتی مطالعہ کرتے ہیں اور اسی حساب سے ان کو قابو لانے کیلئے پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ انکا سب سے کارگر ہتھیار نوجْوانوں کا نفسْیاتی مطالعہ کرکے انکے خواہشات کا اندازہ لگا کر ان کو خریدنا ہے یاکہ کسی طریقہ کار سے اپنے چنگل میں پھسا کر انہیں بلیک میل کرنا ہے، آج کل یہ ہتھیار انتہائی کارگر ثابت ہوئی ہے اور اسی چنگل میں ایسے کردار (جنکو قوم اپنا آئیڈیل سمجھتی/سمجھتا ہے) پھسے ہوئے ہیں جن کے سوچ اور نظریے کو انہوں نے مکمل طور پر اپنے قابو میں لایا گیا ہے، ٹشو پیپر کی طرح انہیں مختلف جگہوں میں استعمال کیا جارہا ہے جنکا عام آدمی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ ایسے کردار کس طرح منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں، وقت ان کو ضرور ایک نہ ایک دن روز روشن کی طرح عیاں کرے گی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے عظیم ادارے سے زیادہ شخصیات کو ترجیح دی ہے، اور انہی شخصیات کے ہر بات پر لبیک کر کے ان پر اندھے بھروسے کے تحت آج خود اسی جھال میں پھسے ہوئے ہیں، (جب ٹشو پیپر پر زیادہ داغ اور میل لگ جائے گی اور وہ کسی کام کے نہیں رہیں گے تو سارے فلم رِلیز کئے جائینگے)۔ یہ نوبت ایسی اندوہناک اور مایوسی کیفیت کا لمحہ ہوگا کہ عام آدمی اور کمزور نظریے کے لوگ بالکل مایوس ہونگے، کیونکہ انہوں نے ان لوگوں پر سو فیصد اندھا بھروسہ رکھا ہے، جب نتیجہ امیدوں کے بالکل برعکس نکلیں گے تو کمزور لوگوں کا مایوس ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اگر آج کے صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جائے تو خواہشات نے اپنا کام تمام کر دیا ہے، خواہشات نے حسین اور خوبصورت زندگیوں کے ساتھ کھیلا ہے، خواہشات نے عظیم کرداروں کو ایسے چنگل میں پھسا دی ہیں کہ وہ سیلاب کی طرح مزید دوسروں کو بھی بہا کر لے جائیں گے جو ہماری تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ عظیم ادارے جو استحصالی نظام کی ستون کو ہلانے کیلئے للکار تھے، انکی چابی بھی انہوں نے اپنے بوسیدہ اور داغدار ہاتھوں میں پکڑ رکھی ہیں جن پر اب اعتماد مکمل طور پر اڑ چکا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہماری تباہی اور کیا ہو سکتی ہے۔۔۔۔