ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

منہ بولتا قوم پرست اور گورنری تحریر: رامین بلوچ

منہ بولتا  قوم پرست اور گورنری  تحریر:  رامین بلوچ

MAR

08
08 / 03 / 2023 مضامین

بلوچستان نیشنل پارٹی بی این پی نیشنل پارٹی یا ان سے ملتے جلتے تیسرے درجہ کے نام نہاد قوم پرست پارٹیوں کے حوالہ سے شروع سے ہمارا ایک ہی موقف رہاہے کہ یہ ریاستی گماشتہ کا کردار ادا کررہے ہیں ، کچھ یار دوستوں نے اس حوالہ سے تلخ کلامی کی حدتک ہم سے بحث مباحثہ کیاکہ یہ بلوچ اور بلوچستان کا نام لیتے ہیں اور آپ ہمیشہ انہیں تنقید کے کٹہرے میں لاکر اپنے حامی یا فطری اتحادیوں کے خلاف بولتے یا لکھتے ہیں ۔ ہم نے کھبی ایک لمحہ کے لئے مصلحتا بھی انہیں قبول نہیں کیا اورعلم دلیل منطق اورسائنسی جواز کے ساتھ انہیں قوم پرستی یا قوم دوستی کے خانہ سے الگ رکھ کر اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ مجھ جیسے معمولی لکھنے والے یا بلوچ دوستی کی سیاست کے ایک عام باسک ہمیشہ ان کی قوم پرستی کی آئیڈیالوجی پر کسی بھی ابہامی کیفیت سے بڑزتر شک کرتاآرہا ہے۔ مجھے اب بھی اپنی موقف پر تذبذب اور پشیمانی نہیں اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ان پارٹیوں کے بنیادی ڈھانچہ پروگرام نعرے اور سیاست کے تانے بانے ہمیشہ سے نوآبادیاتی فریم ورک میں غوطہ زن رہے ہیں ۔ جو سب کے سامنے ہیں ایک آزادی دوست ساتھی اور ایک پولیٹیکل مفکر اس بات کو سمجھ سکتاہے کہ یہ کیسی قوم پرستی ہے۔ جن کے اہداف قابض ریاست کی اجرت تنخواہ اقتدار اور مراعات پر دم توڑتی ہو اس سے آگے انہیں گھٹن محسوس ہو ۔ جس نیشنلزم کے نام پر وہ سیاست کرتے آرہے ہیں اس نیشنلزم کامنتہاء اور مقصدآزادی ہے نیشنلزم اور قومی سوال آزادی اور قومی نجات کے علاوہ اور کیا ہوسکتاہے دنیا بھر کے فلاسفر قوم پرستی کے حوالہ سے جن کی آئیڈیالوجی ہمیشہ یہی رہا ہے کہ قوم پرستی کا انتہاء ادارہ ایک آزادی قومی ریاست کے علاوہ کچھ نہیں ہوتاپھر یہ جماعتیں جس خطے اور قوم کے حوالہ دیکر سیاست کرتے ہیں اس جنگ زدہ خطے اور اس قوم کے حالات کیا ہیں ۔ کیا ان منہ بولے قوم پرست پارٹیوں کی سیاست اس خطے کی قوم کی حالات سے میل کھاتاہے؟ یقینا جواب اثبات میں نہیں ہوگا بلوچستان جہاں سات دہائیوں سے پاکستانی ریاست کا قبضہ ہے اور اس قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ قوم آزادی کی باضابطہ جنگ لڑرہی ہے ہزاروں لوگ جبری گمشدگی کا شکار ہیں ۔ ہزاروں بلوچ فرزند اس راہ عمل میں اپنی جان سے گزر کر شہادت کا رتبہ پاچکے ہیں، گھر بار اجاڑ دیئے گئے ہیں ، ہزاروں بلوچ بیٹیاں نیم بیوگی کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہزاروں ماؤ ں کی روحیں تڑپ رہی ہیں۔ ماؤں اور بہنوں کے آنچل تار تار کردیئے گئے ہیں ۔ بلوچ بیٹی ماحل بلوچ اب بھی نیم جبری گمشدگی کی حالت میں سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ ایک بڑا انسانی بحران کھڑا کردیا گیاہے، لکھنے بولنے اور احتجاج کرنے پر بندش ہے ۔ تمام پر امن سیاسی زرائع جدوجہدپر پابندی ہے، لیکن بی این پی بلوچ جہد کاروں کی قربانیوں کو سیڑھی بناکر وزارتیں لیکر عیاشیاں کررہے ہیں ۔ کیاان تمام تر قربانیوں کا نعم البدل گورنری ہے؟ کیا لاپتہ افراد کے مسئلہ کاحل حکومت میں حصہ داری ہے یا جبری گمشدہ افراد کی نام پر سیاست کے بدلہ میں وزارتیں ہیں؟ جو جبری گمشدہ افراد ہیں وہ بی این پی کے ممبر نہیں بلکہ اس وطن کی باسی سپاہی اور جہد کارہیں، ان کی کمٹمنٹ کا سوواں حصہ بھی بی این پی کی قیادت کے پاس نہیں ہے ۔ ریاست کی ازیت خانوں میں وہ ذہنی اور جسمانی ازیتیوں کا اس لئے سامنا نہیں کررہے ہیں کہ نام نہاد قوم پرست ان کے نام پر سوداگریاں کریں بلکہ ان کی قربانی جفاکشی و سزا کشی کانعم البدل صرف اور صرف آزادی ہے۔ نیشنلزم بی این پی کے لئے کچھ بھی ہو لیکن جبری گمشدہ افراد کے لئے عمل کا راستہ ہے کانٹوں کا سیج ہے وہ جانتے تھے ہر قدم آگے بڑھتے ہوئے تکالیف کا ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ قربانی کے اس پل صراط سے اگر نہیں گزریں گے تو یہ دائمی غلامی ہماےقوم کاحتمی مقدر ہوگی ، جسے نہ کوئی عقیدہ نہ کوئی صوفی نہ کوئی سیاسی پنڈت ہمارے پیشانیوں سے مٹاسکتی ہے ، بلکہ اسے آزادی کے جذبہ اور ایک انقلابی سپرٹ اور ایک فولادی جزبہ اور جدوجہد آزادی کے ساتھ اس کا خاتمہ ممکن ہے ۔وہ جانتے تھے کہ ہر اول دستہ قربانیاں آنے والے نسلوں کے لئے لالٹین کی روشنی ثابت ہوگی۔ کیا بی این پی اپنی نیم مردہ قوم پرستی کا ساکھ بچانے کے لئے قومی و انسانی آزادی کے عظیم پیغمبرآزادی کی آتما خیر بخش مری عظیم سیاسی مدبر قائدشہید غلام محمد بلوچ ہزاروں بلوچ شہداء اسیران اور کلی طور پر بلوچستان میں جاری ماس موومنٹ کو کیسے چیلنج کرسکتے ہیں؟ جن کی آئین ایک ایم این اے یا ایم پی اے یا ایک گورنری کی منصب کے لئے ہمیشہ گروی رکھی جاتی ہے۔ قابض قوتیں صرف ریاستی جبر و تشدد پر اپنی قبضہ قائم نہیں رکھ سکتے ، بلکہ وہ مقبوضہ سماج میں اپنے لئے سیاسی پارٹیاں دانشور صحافی حتی کے مذہبی پیشوااور قوم پرستی کے خول میں ایسے حاوی اور حمایتی ہمدرد پیدا کرتے ہیں، جو مقبوضہ قوم کو گمراہ کرنے اور انہیں آزادی کی جنگ اور جدوجہد سے الگ اور لاتعلق کرنے لئے برسر پیکار رہتے ہیں ۔ یہ سب کچھ بلا معاوضہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی روزی روٹی اور کمائی ریاست کی جانب سے ملنے والی مختلف پیکجز شراکت اقتدار مراعات وزارت نوکری اور ٹھکیداری اور وظیفہ کی صورت میں انہیں ملتا رہتاہے ۔بی این پی اور نیشنل پارٹی اپنے آغاز سے نہ تو قوم دوست پارٹیاں ہیں نہ ہی مستقبل میں ان سے کوئی بڑی توقع کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ دو ہزار سے پہلے بی این پی یا ان کے ہم پلہ جماعتوں پراس طرح کا کوئی سوال اٹھا یا جاتا تو شاید رونماویت میں ڈوبے ان کے کارکناں کو یہ بات ہضم کرنے میں مشکل پیش آتی ،کیونکہ اس وقت یہ ربڑ سٹیمپ پارٹی بلوچ راہنماء سردار عطاء اللہ مینگل کا سہارا لیتے لیتے اپنا منہ چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن سردار عطاء اللہ کی حیات میں بھی اس پارٹی کے خلاف گھیرا اس وقت تنگ ہوگیا ،جب بلوچستان میں حقیقی طور پر نیشنلزم کی سیاست کا احیاء ہوا ۔ اولین دنوں میں اس پارٹی کو سب سے زیادہ ایکسپوز بلوچ نیشنل موومنٹ حق توار اوربی ایس او سمیت برسر پیکار زیر زمین تنظیموں کی جانب سے کیا گیا۔ ان کے نام نہاد قوم پرستی اور سیاسی غداری پر سوال اٹھایا گیا، لیکن یہ حق توار کے خلاف”لاف توار“ اور ”زر توار“کے نام سے پراپیگنڈہ کرکے بلوچ قومی تحریک کو گزینی اور بجارانی کے درمیان کشمکش اور آزادی دوست نوجوانوں کو پٹاخے باز اوباش آوارہ گرد بتاکرجلی کٹی تھریڈز کے ساتھ آزادی پسند دوستوں کو دیوار میں گھاڑنے کی دھمکی بھی دی ۔ قلات جرگہ کے اختتام پر جب اختر مینگل کے گاڑی کے سامنے آزادی کے جوشیلے کارکناں نعرے لگاکر انہیں راستہ دینے سے انکار کیا تو اخترمینگل نے ردعمل کے طور پر کہاتھا کہ گر آپ ریاستی ٹارچر سیلوں کاچکر لگانے کے بعد آکے آزادی کا نعرہ کا لگاہو پھر میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ ابھی تک تم بچے ہو جیل کی سختیاں نہیں دیکھے۔ اختر مینگل آزادی دوست نوجوانوں پراسی انداز میں طنز کیا تھا، لیکن اس بیس سال میں آزادی دوست نوجوانوں نے تمام تر سختیاں جھیل کر آزادی کی جدوجہد کو اپنے خون سے آبیار کیا ۔ لیکن اختر مینگل کے آنکھوں میں وہ پانی کی بوندنہیں نظر نہیں آئی جسے بلوچی ہمت و غیرت کہتے ہیں۔ جب کہ نوجوانوں نے اپنے خون کی بلیدان سے خاک وطن کو لال کردیا۔ لیکن اختر نے ان نوجوانوں کے ساتھ وعدہ وفا نہیں کی کھبی قدوس ان کے لئے سیاہ تھا وہ پاک ہوگیا اور کھبی اپنے تخلیق کردہ قوم پرستی کو عمران خان کے جھولی میں ڈال کر انہیں غلامی کی زہر سے آلودہ کردیاکھبی بلا کسی شک و شرم کے شہباز شریف کے کاسہ لیسی سے اپنا دامن داغدار کرتے رہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قابض قوتوں کے لئے خام مال کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ریاست کی سیاسی منڈی میں ان کی بھی بولیاں ہوتی ہیں۔ ان کی عوض انہیں رائلٹی اور وظیفہ ملتاہے ۔ جہاں بلوچستان میں ایک عام کارکن کے لئے سیاست شجر ممنوعہ بن چکا ہے۔ بی ایس او اوربی این ایم پر پابندی عائد ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لئے منظر عام کلعدم ہے ،جہان سرفیس سیاست کو زیر زمین کردیا گیا ہے۔ وہاں ان کے لئے اسمبلیوں کے دروازے کھلے ہیں ،وہ بول سکتے ہیں۔ جہاں ہر سیاسی عمل کو ریاست تہس نہس کرنے کی درپے ہیں وہاں اس جبر وستم میں شاہی سیاست و فلمی ڈائیلاگ کے لئے تمام دروازے کھلے ہیں اور ان فلموں کی عکس بندی عوامی اجتماع سے لے کر اسمبلیوں میں آزادانہ طور پر کیا جاتاہے ۔ ہم میں سے اگر کوئی بولے تو انہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتاہے ۔ لیکن ان کی باتیں ریاست کے لئے کوئی آسمانی صحیفہ جیسے ہیں۔ کیونکہ سکرپٹ کسی اور کاہے یہ صرف رول پلے کرتے ہیں ۔ چودہ اگست کو قابض کی مراسم میں جشن بھی مناتے ہیں کیک بھی کاٹتے ہیں، ان کی سلامتی کا حلف بھی لیتے ہیں۔ کچھ تو جس کی پردہ داری ہے فینن کا کہنا ہے کہ قومی بورژوا کی نفسیات تاجر کی ہوتی ہے۔ صنعت کار کی نہیں بلکل اسی طرح خیر بخش مری کا کہنا تھا کہ "ایک انڈے کے لئے کیوں لڑیں کیوں اس مرغی خانہ کی ملکیت کا دعوی نہ کریں۔ " ایک دانشور نے اس قسم کی صورتحال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ صورتحال وحشی درندوں کی ایک شکار پر قبضہ کی جدوجہد سے مشابہ ہے۔ جس میں شیر قابض سب سے زیادہ حصہ کھاجاتے ہیں ۔ جب کہ بھیڑیوں گیدڑوں اور گدھوں کو اپنی بھوک برداشت کرتے ہوئے ہر حال میں انتظار کرنا پڑتاہے ۔ بعد ازاں انہیں چار و ناچار ہڈیوں پر گزاراکرنا پڑتاہے۔ یا بقول خیر بخش مری کے انہیں دسترخوان کے بچھا کچھا حصہ مل جاتاہے یا چبایا ہوا گاجر ۔ غلامی کا مطلب اگر گھٹ گھٹ کے جیناہے تو ایسی زندگی گزارنا بھی فریب ہے۔ زندگی کے ساتھ دھوکہ ہے ۔ نسلوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ اپنی تاریخ تہذیب بقاء اور اپنی سرزمین سے غداری کی اس سے بھیانک شکل تاریخ کی آنکھ کو دیکھنا بھی گہوارہ نہ ہو۔ اگر قوم پرستی کا نقطہ نظر یہی ہے ،جس کی نمائش اور رونمائی بی این پی گزشتہ کئی سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر وزارت اعلی گورنر شپی ایم این اے این پی اے گردی کے نام پر جب کہ کارکناں ان کی غیر فطری قوم دوستی پر واہ وا ہ کرتے ہاتھوں کی چاپ سے انہیں داد دیتے تالیاں بجاتے اور انہیں ہار اور پھول پہنا یا جاتے ہیں ۔ انہیں مقدس اور ہیرو گردانا جاتاہے ۔ تو میں صرف ایک جملہ میں کہہ سکتاہوں کہ، ان کا یہ مصنوعی وطن دوستی گورنری کا منصب قبول کرنے کے بعدمزید بے نقاب ہوگا۔ وہ اپنی تاریخ کے بدتریں زوال پزیری سے گزر رہے ہوں گے ۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ ان کی سیاست اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ اب قبضہ گیر کے بلکل پہلو میں آچکے ہیں ان کا یہ منصب انہیں ریاستی جبر وتشدد و جارحیت و جرائم کے ساتھ ایک ہی صفحہ میں کھڑا کرکے ریاست کی بد معاشیوں میں حصہ دار بناکر تاریخ کے چھترول سے قریب تر کردیاہے.