دنیا میں اگر دیکھا جائے تو مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں مسائل کی نشاندہی کیلئے صحافی،دانشور ،محقق،ادیب بڑی تگ و دوڑ کے بعد ایک یا دو مسائل بڑی مشکل سے ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تاکہ اپنی شعبے میں اپنی کارکردگی کو عیاں کرکے اور ایک اچھی تحقیق کر سکیں جوکہ اُسے اس کام کیلئے کئی مہینے یا سال بھی لگ سکتے ہیں۔ لیکں ہمارے ہاں ہر چیز بلکل مختلف ہے،جہاں مسائل کا انبار لگا رہتا ہے اور اُن مسائل کو اجاگر کرنے یا نشاندہی کرنے والے کو بھی ایک مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ چونکہ آپ سب کو پتہ ہے کہ بلوچستان کا کیس پاکستان سمیت پوری دنیا سے بھی قدرے مختلف ہے،بلوچستان خطے کا سب سے بڑا معدنی ذخائر پیدا کرنے والا سرزمیں ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ٹن سونا،چاندی،کاپر ،ایلومینئیم،لیتھئیم،گیس اور عام تیل وغیرہ نکالے جارہے ہیں۔ اسکے علاوہ گوادر کی گہری پورٹ ایشیا کا نمبر ون پورٹ بن چکُی ہے اور شاید دنیا کی تیسری یا چوتھی ہے جوکہ پورے دنیا کو ایک معاشی حب بنانے جارہی ہے۔ لیکں بلوچ جو اس کا مالک ہونے کے باوجود سب سے پسماندہ،غریب ترین باشندہ تصور کی جاتی ہے۔ حال ہی میں ہونے والے ایک تحقیق کے مطابق بلوچستان کے ستّر فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں،نوے فیصد پڑے لکھے نوجواں بے روگار ہیں جوکہ کُل بلوچستان کی آبادی کے ایک فیصد بھی نہیں ہیں،سکولیں،کالجیں اور جامعات عارضی یا پھر مکمل بند ہونے کے قریب پہنچ چکُے ہیں، جیسا کہ بلوچستان یونیورسٹی کئی مہینوں سے اپنے اسٹاف کو تنخواہ دینے کے قابل نہیں رہاہے، جوکہ سب سے پرانا،بڑا اور واحد یونیورسٹی شمار ہوتا ہے۔یہی نہیں خضدار یونیورسٹی،بیوٹمز یونیورسٹی اور تربت یونیورسٹی بھی یہی مسائل کے شکار ہوچکے ہیں۔ اس سب کے باوجود بلوچ نے کبھی بھی کوئی شکایت نہیں کی کہ ہمیں تعلیم،روزگار،مہنگائی سے چھٹکارا،بڑی بڑی کُشادہ سڑکیں،لاکھوں ہیکڑ سے پھیلی فیکٹریاں یا کئی کلو میٹر لمبی موٹرویز دیں، بلکہ اِس سب کے باوجود بلوچ اپنی مدد آپ کے تحت پڑھتے بھی ہیں،روزگار کے ذرائع بھی بھی خود پید کرتے ہیں،اور پُرسکوں ماحول میں اسی سے گزارا یا خوش ہیں لیکں خدادادِ پاکستان کو پھر بھی یہ سب کچھ گوارا نہ ہے ۔ ان کا سب کچھ چھیننے باوجود،سب کچھ ہڑپنے،لوٹنے اور کنگال کرنے کے درپے ہیں کہ ہمارے لوٹ مار کے باوجود یہ قوم زندہ اور خوش کیسے ہے ؟ پھر ایسا کیا کیا جائے جس سے یہ قوم ختم ہوجائے یا تڑپتا رہے؟ پاکستانی تھنک ٹینکوں کی بیٹھک کے بعد انہوں نے بلوچ کو جبری طور پر اغوا کرنا شروع کردیا،جبری گمشدہ افراد کے لاشوں کو مسخ کرکے پھینکنے کا سلسلہ،بلوچستان کے طلبا،شُعرا،ادیب،دانشور،سیاسی و سماجی کارکنوں کو چن چنُ کر ٹارگٹ کرنا شروع کردیا یا پھر اغوا کرکے نعشوں کو مسخ کرکے پھینکنا شروع کردیا جو بدستور جاری ہے۔ یہ سلسلہ دو دہائیوں سے چل رہا ہے،روزانہ کی بُنیاد پر آپریشن عروج پر ہے ،مارو،اٹھاؤ ،مسخ کرکے پھینکو پالیسی جاری رہنے باوجود بلوچ اُسی معمول کے مطابق سب کچھ سہتے اور برداشت کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اب کی بار آقا نے ایک نئے طریقے سے،ایک نئے فلسفے سے،ایک نئی ہنر کے ساتھ وہی حربہ نئے انداز میں شروع کیا ہوا ہے جس کے مطابق بلوچ کے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہن،اُن کی عزت مطلب ماں،بہں یا بیوئیوں کو اُٹھاؤ،اُنہیں جعلی ایف،آئی،آر میں ملوث کرو،جہاں ضرورت پڑے تو اِنہیں اجتماعی طور پر جعلی مقابلے میں مار دو،سارے رسد کے راستے بند کردو کہ تاکہ سب کچھ چھیننے کے بعد یہ زِندہ نہ ر ہیں، اسی مقصد کی حصولی کیلے تجارتی مراکز کو بند کرنا،بارڈر کو بند کرنا،گہری ذرخیز سمندر کو بانج کرنا،ٹرالر معافیہ کو فروغ دینا،ہر قدم پر چیک پوسٹ بناکر تزلیل کرنا،ڈیتھ اسکواڈ کو کُھلی چھوڑ دینا،منشیات کو ہر گھر اور گَلی میں پہنچانا اور حتیٰ کہ مزدوری کرنے والے کو بھی نہیں چھوڑنا شامل ہے۔ بلوچستان پوری دنیا میں اب گُمشدہ کردیا گیا ہے۔ اگر تاریخ کے کتابوں میں دیکھا جائے،میڈیا کا مطالعہ کیا جائے،کسی مفکر یا فلاسفر سے سوال کیا جائے،ظلم اور جبر پر تحقیق کیا جائے تو سب جگہ یہی ملے گا کہ بلوچستان جبری طور پر لاپتہ ہوچکا ہے،دانشور،مفکر،ادیب،ساحل وسائل،قدرتی معدنیات سمیت بلوچستان کا سب کچھ لاپتہ ہوچکے ہیں، اگر کچھ ہے تو وہ صرف بنجر زمینوں کا ٹُکڑا،سمندر کی مَست موجیں،بلند و بالا پہاڑیں،لہراتی مہک مہک کر چلتی ہوائیں،چہکتی مسکراتی ہوئی پرندے اور دریائے ہنگول کی چوٹیوں پر گومتے پھرتے ہوئے لنگڑے لولے شکار ہوئے مارخور جوکہ کبھی بلوچستان کی شان ہوا کرتے تھے۔