بلوچ قوم کا خون بہانے میں سرداروں ہاتھ شامل ہے تحر یر : گنوکین مھِروان زرمبش مضمون ویسے اگر دیکھا جائے ستر سالوں سے بلوچوں کو تباہ کہا جارہا ہے اُن ستر سالوں میں ہم نے اپنے کئی محکوم بلوچوں کی نعشیں اُٹھائی ہیں ، جس میں کئی بے گناہ بھی شامل تھے، جو اس ریاست نے سرداروں کی مدد سے مار ڈالے تھے۔ شاید یہ نعشیں گرانا اور انکو اپنی زندانوں میں ڈالنا ایک کاروبار بن گیا ہے۔ آج اگر دیکھا جائے بلوچ قومی تحریک کو بھی ایک حد تک سرداروں نے نقصان دینے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں اختر مینگل برائے راست شامل ہیں ، جس نے اپنے خود کے فوجی کیمپیں بنائی ہیں ،جو برائے راست اس ریاست کے کام آسان کر نے میں اُنکی مدد کر رہی ہیں ۔ اگر دیکھا جائے سیندک اور ریکودیک کا سودا بھی اختر مینگل نے لگایا تھا ،بلکہ اس وقت بھی اپنے علاقے کے پہاڑوں کو بیج کر اپنا کاروبار برابر کر چکا ہے اور وہاں کے رہنے والے محکوم بلوچوں کو پینے پانی تک میسر نہیں ہے ۔ اختر مینگل اپنی ایک تقایر میں کہہ رہے تھے کہ بلوچ قوم کی خون اس ریاست کیلئے ایک ٹماٹر جیسا سستا ہوچکا ہے ، واقعی اس بات میں کوئی شک نہیں ہے، کیونکہ اسکے پیچھے بھی آپ کا ہاتھ ہے ۔ جس دن بلوچ تحریک مظبوط ہوا تھا اُسی دن پاکستان کو ڈر تھا کہ ہمارے وجود کا نام اور نشان بھی نہیں رہے گا اس لئے اس نے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کیلئے اپنی پالیسی بنا نا شروع کیا ،تو سب سے زیادہ سردار اختر مینگل کو شراکت بخشا ۔آجکل جتنے بھی بلوچوں کی نعشیں گر گئیں ہیں اُن میں سرداروں اور نوابوں کے ہاتھ شامل ہیں ،کیونکہ اُنھیں نہ پپلے بلوچ قوم کا درد محسوس ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگی کیونکہ اُنکو صرف اپنا پیٹ بھرنا ہے اور عیاشی کرنا ہے ۔ آج بھی سردار عیش کر رہے ہیں ، انکے ہاتھ بلوچ قوم کی خون سے رنگے نظر آتے ہیں ۔ ان سرداروں کی ہاتھیں بلوچ قوم کی خون سے رنگیں ہیں ، عبدالرحمن کھیتران جیسے گد سرداروں نے پتا نہیں کتنے ماوں کے لعل مار کر پھنک دیئے ہیں اور کتنوں کو اپنی قید خانوں میں بند کر کے رکھا ہوا ہے اور پتا نہیں کتنوں کو ان سرداروں نے زندہ زمین میں گاڑھ دیا ہے