بلوچ سر زمین کی اصل حقّ ملکیت اور قابضین کے خلاف روز اوّل سے بلوچ سپوتوں نے مسلّح جدو جهد شروع کی وہ نوروز خان تها یا جنرل شیروف ، آغا عبدالکریم تها یا موجوده جُهد آزادی کے جان نثار ، جنهوں نے اپنا سب کُچهـ چهوڑ کر مزاحمت اور جنگ آزادی میں اپنا سب کُچهـ قربان کر دیا اور جهد آزادی کی جنگ میں کتنے پیرو جوان شهید هو گئے اور کتنے دشمن کے ازّیت خانوں میں تا حال پابند سلاسل هیں ، ؟؟؟ اور دشمن نے شاید خوش فهمی میں بلوچ قوم پر تاں آخری حدّ تک ظلم بربریت کا بازار گرم رکها کہ شاید بلوچ قوم اپنے مقصد سے دست بردار هو جائیگی مگر اس کے بر عکس ان مظالم نے بلوچ تحریک آزادی کو زیاده منظم اور بلوچوں کے حوصلے بُلند کر دیئے اور ایسے ظالمانہ اور بربریت کے خلاف بلوچ قوم نے قبضہ گیر کے ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی هے ، دشمن تاحال یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اس جهد آزادی کو کسطرح تهریٹ کیا جائے ، دشمن کی هر چال کو ناکامی کے سوا کچهـ حاصل نه هوا ، حکومت نے ایڑی چهوٹی کی زور لگائی اور بلوچ قومی تحریک کو زیر کرنے کی هر ممکن کوشِش کی مگر الله پاک کی مدد سے بلوچ قومی تحریک روز بروز مضبوط هوتی رهی اور حکومت اس صورتحال سے بوکهلاهٹ کا شکار هوگئی اور بالآخر پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے قومی تحریک کے خلاف ایک ٹولہ جسکو ڈیتهـ اسکواڑ کها جاتا هے اور حتّی کہ شیریں زبانی کرنے والے بلوچ دشمنوں نے دولت اور اقتدار کیلے اپنی بلوچی ناموس کو بهی خاطر میں نہ لایا اور بلوچ کاز کے خلاف هر وه هتهکنڈه استعمال کیا جس نے موجوده وقت میں تحریک پر کچهـ اثر ڈالا مگر بلوچ سپوتوں کی جرآت ءُ دانشمندانہ حکمت عملی نے دشمن اور اس کے حواریوں کا هر سازش ناکام بنا دیا ، معزّز حضرات ، کچهـ لوگ کهتے هیں کہ بلوچ ساده هیں اس لئے هر سازش کے دام میں پهنس جاتے هیں ،،، مگر نهیں بلوچ اتنا ساده نهیں کہ اپنی بُنیادی حقوق سے دستبردار هو جائے اور دشمن کا یار بن جائے بلکہ یه بات حقیقت هیکہ بلوچ ایک وفادار قوم هے اور فریب و دهوکہ دهی کا کبهی سوچ بهی نهیں سکتا۔ البتہ کچهــ لوگ جن کو کالے کرتوتوں کی وجہ سے قوم نے مُسترد کئے هیں جنکا کوئی قول و فعل بلوچی روایات کے زمرے میں نهیں آتا اور نه انکو بلوچ تصور کیا جائیگا جو بلوچ کاز کے خلاف هر وه هتکهنڈه استعمال کریں گے جنکو ان کا آقا رات کو پڑهاتا ، بتاتا اور سکهاتا هے ، اور یہ مُرده ضمیر دشمن کی هر وه چال کو استعمال کر رهے هیں، مگر شرمندگی انکے تقدیر میں ازل سے لکها هے تو کون انکو سرخرو کرے ؟؟؟ مجهے یقین هیکہ بلوچ شهیدوں کا خون ایک آزاد بلوچستان کی نوید جلد همکو سُنائے گا اور عنقریب دشمن کے آلہ کاروں کا احتساب کیا جائیگا ۔ بلوچ قوم کا خون بہانے میں سرداروں ہاتھ شامل ہے تحر یر : گنوکین مھِروان زرمبش مضمون ویسے اگر دیکھا جائے ستر سالوں سے بلوچوں کو تباہ کہا جارہا ہے اُن ستر سالوں میں ہم نے اپنے کئی محکوم بلوچوں کی نعشیں اُٹھائی ہیں ، جس میں کئی بے گناہ بھی شامل تھے، جو اس ریاست نے سرداروں کی مدد سے مار ڈالے تھے۔ شاید یہ نعشیں گرانا اور انکو اپنی زندانوں میں ڈالنا ایک کاروبار بن گیا ہے۔ آج اگر دیکھا جائے بلوچ قومی تحریک کو بھی ایک حد تک سرداروں نے نقصان دینے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں اختر مینگل برائے راست شامل ہیں ، جس نے اپنے خود کے فوجی کیمپیں بنائی ہیں ،جو برائے راست اس ریاست کے کام آسان کر نے میں اُنکی مدد کر رہی ہیں ۔ اگر دیکھا جائے سیندک اور ریکودیک کا سودا بھی اختر مینگل نے لگایا تھا ،بلکہ اس وقت بھی اپنے علاقے کے پہاڑوں کو بیج کر اپنا کاروبار برابر کر چکا ہے اور وہاں کے رہنے والے محکوم بلوچوں کو پینے پانی تک میسر نہیں ہے ۔ اختر مینگل اپنی ایک تقایر میں کہہ رہے تھے کہ بلوچ قوم کی خون اس ریاست کیلئے ایک ٹماٹر جیسا سستا ہوچکا ہے ، واقعی اس بات میں کوئی شک نہیں ہے، کیونکہ اسکے پیچھے بھی آپ کا ہاتھ ہے ۔ جس دن بلوچ تحریک مظبوط ہوا تھا اُسی دن پاکستان کو ڈر تھا کہ ہمارے وجود کا نام اور نشان بھی نہیں رہے گا اس لئے اس نے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کیلئے اپنی پالیسی بنا نا شروع کیا ،تو سب سے زیادہ سردار اختر مینگل کو شراکت بخشا ۔آجکل جتنے بھی بلوچوں کی نعشیں گر گئیں ہیں اُن میں سرداروں اور نوابوں کے ہاتھ شامل ہیں ،کیونکہ اُنھیں نہ پپلے بلوچ قوم کا درد محسوس ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگی کیونکہ اُنکو صرف اپنا پیٹ بھرنا ہے اور عیاشی کرنا ہے ۔ آج بھی سردار عیش کر رہے ہیں ، انکے ہاتھ بلوچ قوم کی خون سے رنگے نظر آتے ہیں ۔ ان سرداروں کی ہاتھیں بلوچ قوم کی خون سے رنگیں ہیں ، عبدالرحمن کھیتران جیسے گد سرداروں نے پتا نہیں کتنے ماوں کے لعل مار کر پھنک دیئے ہیں اور کتنوں کو اپنی قید خانوں میں بند کر کے رکھا ہوا ہے اور پتا نہیں کتنوں کو ان سرداروں نے زندہ زمین میں گاڑھ دیا ہے۔