ریڈیو زرمبش اردو | ریڈیو زرمبش اردو

کہانی سنو تحریر: ذوالفقار علی زلفی

کہانی سنو  تحریر: ذوالفقار علی زلفی

MAY

22
22 / 05 / 2023 مضامین

بلوچستان کی سب سے بڑی غیر پارلیمانی جماعت "بلوچ نیشنل موومنٹ" ہے ـ اس "انکشاف" پر یقیناً پاکستان کے بیشتر افراد چونک گئے ہوں گے ـ چونکنا بنتا بھی ہے انہوں نے شاید ہی اس جماعت کا نام سنا ہوگا، وہ تو بلوچستان کا نام بھی کبھی کبھار ہی سنتے ہیں ـ بہرحال یہ درست ہے بلوچستان کی سب سے بڑی غیر پارلیمانی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ ہے ـ اس پارٹی کی بنیاد 2004 کو طلبا تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق چیئرمین غلام محمد بلوچ نے رکھی ـ ان کا اور ان کے چند دیگر ہم خیال ساتھیوں کا موقف تھا بلوچ مسئلے کا پاکستانی فریم ورک کے اندر کوئی حل نہیں ہے لہذا صوبائی خودمختاری، انتخابات اور پارلیمنٹ وغیرہ کو مسترد کرکے بلوچ قومی آزادی کے یک نکاتی ایجنڈے پر عوامی تحریک چلانی چاہیے ـ اوائل میں ان کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا، سردار و ارب پتی مڈل کلاس ان کی جماعت کو طنزیہ "تانگہ پارٹی" کے نام سے پکارتے تھے ـ غلام محمد مگر دھن کے پکے نکلے ـ 2008 آتے آتے ان کی پارٹی ایک موثر عوامی تحریک کا روپ دھار گئی ـ اس دوران (2007) وہ کراچی کے علاقے لیاری سے ایک طے شدہ جلسہِ عام سے چند گھنٹے قبل پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد جبراً لاپتہ بھی کئے گئے ـ غالباً چار مہینے بعد سبی سے ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی ـ غلام محمد بلوچ کی قیادت میں پارٹی شعرا، ادبا، وکلا، دانش وروں، ڈاکٹروں و انجینئروں کے ایک زبردست پلیٹ فارم کی صورت سامنے آئی ـ پارٹی کی اثراندازی نے پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے کان کھڑے کر دیے ـ انہوں نے سب سے پہلے غلام محمد بلوچ کو نشانہ بنایا ـ 2009 کو انہیں جبراً لاپتہ کرکے قتل کرکے پھینک دیا گیا ـ اس کے بعد قتال کا ایک وحشت ناک سلسلہ شروع ہوگیا جو تاحال بنا رکے جاری ہے ـ پارٹی کے سیکڑوں کارکنان بشمول مرکزی قیادت جبراً گم شدہ کئے گئے ـ جبری گمشدگان کی ایک بڑی تعداد مسخ لاش بن کر بازیاب ہوئی ـ متعدد تاحال جبراً لاپتہ ہیں ـ درجنوں کارکنان ہدف بنا کر قتل کئے گئے ـ قتال کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا، طلبا تنظیم بی ایس او کے گرد بھی سرخ دائرہ کھینچا گیا ـ قتال کے اس وحشت ناک سلسلے نے پس ماندہ بلوچ سماج کے بہترین اذہان چھین لئے ـ قتل ہونے سے بچنے کے لئے ایک بڑی تعداد کو جبراً ہجرت کرنی پڑی ـ متعدد کارکنان نے پہاڑوں کی راہ لی اور وہ مسلح جدوجہد کا حصہ بن گئے ـ بلوچ نیشنل موومنٹ پر جو قہر ٹوٹی اس کے بعد گمان یہی تھا کہ پارٹی بکھر جائے گی ـ مگر اس کے برعکس پارٹی زیادہ شدت کے ساتھ ابھری ـ بلوچ نے زیرزمین رہ کر سیاسی تحریک چلانا سیکھا، سیاسی لٹریچر کی نشر و اشاعت کی جانب توجہ دی گئی، سوشل میڈیا کا استعمال بڑھا ـ یہ پارٹی آج بھی، بدترین حالات میں بھی بلوچستان کی موثر ترین غیر پارلیمانی سیاسی جماعت ہے ـ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف اس وقت جو کریک ڈاؤن جاری ہے وہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی نسبت 25 فیصد بھی نہیں ہے ـ ضیا دور میں جیالوں پر جو ستم توڑے گئے وہ بھی بلوچستان کی نسبت کچھ نہیں ہے ـ بہرکیف معاملہ بھی مختلف ہے ـ جیالے اور انصافی پاکستانی اقتدار میں حصہ مانگ رہے تھے ـ بلوچ اقتدار میں حصہ نہیں بلکہ ایک الگ ملک کا مطالبہ کر رہے ہیں ـ ردعمل یکساں ہو بھی نہیں سکتا ـ اس کے باوجود ریاستی تشدد کا سامنا کرنے والے پاکستانی سیاسی کارکنوں کے لئے "پسماندہ" بلوچستان سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے ـ