آئے روز بلوچستان میں طلبہ کو اٹھایا جاتا ہے بلوچستان کی تعلیم یافتہ طبقات کو اُٹھا کر اپنے ازیت خانوں میں بند کرکے تادم مرگ سلال ہے اور ان پڑھ لوگوں کو ہم پر مسلط کرکے جیسے اپنے بنیادی حقوق کا پتہ ہی نہیں وہ ہماری حقوق دینے کیلئے اعوانوں میں وزیر بن گئے ہے،
تعلیم یافتہ طبقات کو زندانوں میں ازیت ناک ٹارچر کی جاتی ہے،
یہ ریاست کا المیہ ہے کہ اپنے اندر شعور رکھنے والے لوگوں کو برداشت ہی نہیں کرسکتا، اور معاشرہ روز بہ روز زوال کی طرف رواں دواں ہے،
بلوچستان کی موجودہ پارلیمانی سیاستدان جو خود کو بلوچستان کا وارث سمجھتے ہے انہی لوگوں نے بلوچستان جنت جیسی سرزمین کو بلوچوں کیلئے جہنم بنا کے رکھا ہے،
جہاں لوگوں کو اس قدر دبایا جاتا ہے کہ لوگ اپنی بنیادی حقوق کو چھوڑ کر خاموشی اختیار کرلیں، ایک ایسی سماج بن چُکی ہے کہ وہاں کے رہنے والے لوگ زہنی مریض بن چُکے ہیں،
بلوچستان میں تعلیمی بحران کی وجہ سے لوگ اپنی تعلیمی پیاس کو بُجھانے کیلئے ملک کے دوسرے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کے بعد ان کو وہاں ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑھنا، اور اب تک کئی طلبہ کو پاکستان کے مختلف یونیورسٹی میں بلوچ طلبہ کو لاپتہ کردیا ہے،
اگر اس سماج میں زندہ رہنا چاہتے ہو، سانس لینا چاہتے ہو، بے حس زندگی گُزارنا چاہتے ہو تو بہتر ہے خاموش رہو کیوکہ یہ سماج باغیانہ سوچ برداشت نہیں کرسکتا